سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(34) رؤیت ہلال میں عرب کو معیار بنانے کا حکم

  • 23321
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1902

سوال

(34) رؤیت ہلال میں عرب کو معیار بنانے کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مرکز ابن قیم  کادوسرا رؤیت ہلال سےمتعلق ہے۔ لکھتےہیں:بعض ہند کےمسلمان رمضان اورعیدین کےموقع پرعرب ممالک کی رؤیت ہلال کااعتبار کرتےہوئے روزہ شروع کرتےہیں اور عید مناتےہیں۔مسلمانوں کےاتحاد واتفاق کےان مبارک موقعوں پریہ حضرات اختلاف وانتشار کامظاہرہ کرتےہیں، جس کی وجہ سے ایک ہی گھر میں دو دن الگ الگ عید منائی جاتی ہے۔

کیاان لوگوں کا عرب دنیا کی رؤیت پراعتماد کرنا شرعاً درست ہے؟ کیاایک شہر میں دو یاتین دن عیدیں منائی جاسکتی ہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دے کرشکریہ کاموقع عنایت فرمائیں اورعنداللہ ماجورہوں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

چونکہ اس موضوع پربہت کچھ لکھا جاچکا ہے، اس لیے میں چند اصولی باتیں درج کرتا ہوں:

1۔ حدیث نبوی کےمطابق نئے چاند کاتعلق رؤیت بصری سےہے، نظرنہ آنے کی صورت میں شعبان کےمہینہ کےتیس دن پورے گئے جائیں اورپھر رمضان شروع کیاجائے۔(صحیح البخاری، الصوم، حدیث: 1907- 1909، وصحیح مسلم، الصیام: حدیث: 1080، 1081)

2۔ شریعت نےاختلاف مطالع کااعتبار کیاہے۔ خاص طورپر اگردو ممالک اتنی دوری پرہوں کہ دونوں کےاوقات میں رات کےکسی حصہ کا بھی اشتراک نہ ہو۔

3۔ اگر مشرق میں چاند واقعی نظر آجائے توتمام مغربی ممالک میں ایسے چاند کادیکھا جانا یقینی ہوجاتاہے کیونکہ مغربی ممالک میں مغرب کا وقت بعد میں ہوگا اور اس لحاظ سے چاند کی عمر گھنٹوں  کےاعتبار سےپڑھتی جائے گی اوراس کی رؤیت کاامکان بھی زیادہ ہوتا چلا جائے گالیکن اگر اس کا عکس ہو،یعنی کسی مغربی ملک میں چاند کی رؤیت ہوئی ہوتو مشرقی ممالک میں یہ چاند اگلے دن کےغروب کےبعد ہی نظر آئے گا، یعنی ایک دن کا فرق واقع ہوجائےگا۔

چونکہ سعودی عرب اوردوسرےعرب ممالک ہندوستان سےمغرب میں ہیں، اس لیے سعودی عرب کی رویت اہل ہندوستان کےلیے قابل حجت نہیں ہوگی، البتہ یورپ اورامریکہ کےلیے یقیناً قابل حجت ہوگی۔

ایک وسیع وعریض ملک جیسے ہندوستان یامریکہ میں تواختلاف مطالع کااعتبار یکا جاسکتاہےلیکن ایک ہی شہر میں رمضان شروع کرنے یاعید منانے پراختلاف کرنا ناقبل فہم ہے، گواب تک ایسا ہوتاچلا آرہاہے،خود برطانیہ میں بلکہ شہرلندن میں بعض دفعہ دو مختلف دن عیدیں منائی جاتی رہی ہیں، پہلے دن وہ لوگ عید مناتےہیں جو بلاد عربیہ اورخاص طورپر سعودی عرب کی رؤیت پراعتماد کرتےہیں اوردوسرے دن وہ لوگ جورؤیت علمی(یعنی فلکیاتی حساب کےمطابق) کےقائل ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہےکہ رؤیت بصری اورعلم فلکیات میں مطابقت پیدا کی جائے، یعنی 29 ویں شب کوچاند دیکھنےکی کوشش کی جائے لیکن ایسی رؤیت کوتسلیم نہ کیاجائے ، اگر فلکیاتی اعتبار سے اس شب چاند سورج کےغروب ہونے سےپہلے ہی غروب ہوچکا ہے، یعنی مطلع پرسرے سےموجود ہی نہ ہویا وہ قران شمس وقمر کےبعد اپنی عمر کےچند گھنٹے گزار چکا ہو جس میں تنکی آنکھ سےاس کادیکھنا ناممکن ہو، عام طورپر کہا جاتاہےکہ جب تک نئے چاند کی عمر سولہ سترہ گھنٹے نہ ہوجائے وہ دیکھے جانے کےقابل نہیں ہوتالیکن تجربے سےیہ بات ریکارڈ کی گئی ہےکہ آٹھ گھنٹےکاچاند بھی نظرآیا ہے، اس لیے یا تونئےچاند کےلیے کم از کم آٹھ گھنٹے کی مدت مقرر کرلی جائے اور یاپھر اس شرط کی سرے سےخارج کردیا جائے اورصرف یہ کہا جائے کہ انتیسویں شب کوفلکیاتی اعتبار سے چاند اگر مطلع پرموجود ہو اور کہیں بھی رؤیت کی مصدقہ اطلا ع آجائے تو اس پر اعتبار کرلیا جائے ۔واللہ اعلم ۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

روزے کےمسائل،صفحہ:314

محدث فتویٰ

تبصرے