میاں بیوی میں سے کسی کاانتقال ہوجائےتو کیا زوجین کارشتہ باقی نہیں رہتا؟ کیا متوفی یا متوفیہ کاچہرہ دیکھنا یامرنےکےبعد ایک دوسرے کوغسل دیناجائز نہیں ہے؟ عموماً ہمارے معاشرے میں انتفال سےطلاق ، علیحدگی اوراجنبیت کےواقع ہونےکاجوتصور پایا جاتاہےاس کی حقیقت کیاہے؟ اگر دنیامیں ان کےدرمیان تفریق ہوجاتی ہے جبکہ وہ دونوں نیک تھے توپھر قیامت میں وہ دونوں ایک ساتھ رہیں گےیانہیں؟ قرآن حکیم میں کئی جگہ یہ ہےکہ وہ جوڑے جوڑے جنت میں ہوں گے، اس کاکیامطلب ہے؟
اگرزوجین ایک دوسرے کوغسل دےسکتےہوں توچہرہ دیکھنا بالاولیٰ جائزہے۔مرد اپنی بیوی کواور بیوی اپنےشوہر کوغسل دے سکتی ہے۔اس بارےمیں مولانا عزیز زبیدی کامرتب کردہ فتویٰ ملاحظہ ہو:
خاوند بیوی کاایک دوسرے کوغسل دینا: اس مسئلہ پرتواجماع ہےکہ جوشوہر مرجائے توعورت اسے غسل دےسکتی ہے۔
نقل ابن المنذر وغيره الاجماع على جواز غسل المرأة زوجها قال الشاه ولى الله: واتفقوا على جواز غسل المرأة زوجها.حضرت صدیق اکبر جب فوت ہوئے تو آپ کی زوجہ محترمہ اسماء بنت عمیس نےصحابہ کی موجودگی میں غسل دیا، پھر باہرنکلیں۔اور اس کی وصیت خود حضرت ابوبکر نےکی تھی۔
حضرت جابربن زید نےاپنی بیوی کووصیت کی تھی کہ وہ انہیں غسل دے۔
حضرت ابوموسیٰ کوان کی اہلیہ نےغسل دیاتھا۔
حضرت عبدالرحمان بن عوف کےصاحبزادے حضرت ابوسلمہ فرماتےہیں کہ اگر مرد فوت ہوجائے تو اس کی اہلیہ اےغسل دے۔
حضرت عطاء فرماتےہیں:بیوی اپنے خاوند کوغسل دے۔
ہاں اس امر میں اختلاف ہےکہ مرد اپنی بیوی کوغسل دےیانہ؟ احناف اسےجائز نہیں سمجھتے مگر یہ بات محل نظر ہےکیونکہ یہ بات صحیح حدیث کےخلاف ہے۔رسول اکرمﷺ نےحضرت عائشہ ؓ سے فرمایاتھا: اگرتمہارا مجھ سے پہلے انتقال ہوگیا تو میں تمہیں غسل بھی دوں گا اور کفن پہناؤں گا۔،،
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:اگر وہ بات مجھے پہلے معلوم ہوجاتی جوبعد میں معلوم ہوئی تو آپﷺ کوان کی بیویاں ہی غسل دیتیں۔
حضرت علی نےحضرت فاطمۃ الزہرا کوغسل دیا تھا۔( سنن الدارقطنی:2؍79،والمستدرک للحاکم 3؍ 163، 164، یہ قصہ متعدد اسناد سےمنقول ہے۔ ان میں سے ایک سند کوحافظ ابن حجر نےحسن کہا ہے۔(تلخیص الحبیر:2؍327 )
حضرت ابن عباس فرماتےہیں:مرد اپنی بیوی کوغسل دینے کازیادہ حق رکھتاہے۔
عبدالرحمٰن بن الاسود(تابعی) فرماتےہیں اپنی بیویوں کومیں خود غسل دیا کرتاہوں، ان کی ماؤں اوربہنوں کورورک دیا کرتا ہوں۔
حسن بصری فرماتےہیں کہ میاں بیوی ایک دوسرے کوغسل دے سکتےہیں۔
یہ فتویٰ’’ فتاویٰ علمائے حدیث،، جلد پنجم سےلیا گیاہےاوراس میں اصول حدیث کی چند بحثیں حذف کردی گئی ہیں۔
یہاں ایک نکتہ اورملاحظہ ہو۔
کیاموت سےمیاں بیوی کاتعلق ہمیشہ ہمیشہ کےلیے ختم ہوجاتاہے؟
جہاں تک دنیوی زندگی کا تعلق ہےتویہ تعلق سورج کی غروب ہونے کےبعد جیسے شفق کچھ دیرتک رہتی ہے اس طرح باقی رہتا ہے، اسی لیے مرد عورت کاوارث ہوتا ہےاورعورت مرد کی وارث ہوتی ہے۔عورت عدت وفات گزارتی ہے،جس کی مدت چار ماہ دس دن ہے۔ اللہ تعالیٰ نےاس بات کاوعدہ کیاہےکہ وہ ایک شخص کےساتھ جنت کےاسی درجے میں جس میں وہ خود ہے، اس کےبال بچوں اوروالدین کوبھی جمع کردےگا۔ارشادفرمایا:
’’ ہمیشہ رہنے کے باغات جہاں یہ خود جائیں گے اور ان کے باپ دادوں اور بیویوں اور اولادوں میں سے بھی جو نیکو کار ہوں گے، ان کے پاس فرشتے ہر ہر دروازے سے آئیں گے ،،
(سورۃ الرعدآیت نمبر23)
سورہ زخرف میں ارشاد فرمایا:
’’ تم اورتمہاری بیویاں ہشاش بشاش(راضی خوشی) جنت میں چلے جاؤ۔،،(الزخرف 43:70 )
اس سےبعض مفسرین نےجنت کی حوریں مرادلی ہیں لیکن ادخلواالجنة(جنت میں داخل ہوجاؤ) اس بات کا قرینہ ہےکہ اس سے مراد دنیا کی بیویاں ہی ہیں۔
کہنے کامقصد یہ ہےکہ موت کی وجہ سےمیاں بیوی کاتعلق عارضی طورپرمنقطع ہوجاتا ہے کیونکہ جنت میں دوبارہ ملاپ ہونا ہے۔ توکیا اس عارضی انقطاع کایہ معنی لیا جائے کہ موت کےبعد ایک دوسرے کاچہرہ دیکھنا بھی منع قرار دے دیا جائے؟
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب