ایک طرف توقرآن میں ﴿لا إِكراهَ فِى الدّينِ﴾ (دین میں جبر نہیں ) کہا گیا اوردوسری طرف مرتد کےلیےقتل کی سزا تجویز کی گئی ہے،کیا دونوں میں تعارض نہیں؟
جبر نہ کرنےکاتعلق دین میں داخل ہونےسے ہےاورسزا کاتعلق دین سےخارج ہونےسےہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہےکہ کسی بھی شخص کوجبراً مسلمان نہیں بنایا جاسکتا لیکن اسلام میں داخل ہونا ایک فوج میں منسلک ہونے کےمترادف ہے۔جس طرج ایک فوجی کی زندگی قواعد اورڈسپلن کی پابندہوتی ہےاُسی طرح ایک مسلمان کی نہ رصرف روز مرہ زندگی بلکہ تمام لائف سٹائل کچھ ضوابط اورقوانین سےگھرا ہوتاہے اورجس طرح فوج میں داخل ہونےوالے سپاہی سےملک سےوفاداری کاعہد لیا جاتا ہے اُسی طرح کلمہ توحید پڑھ کر مسلمان ہونےوالا شخص بھی اللہ سےایک عہد کرتاہے جس کی پاسداری اس پرلازم ہے۔اور جیسے ایک فوجی اگراپنے کمانڈرکی حکم عدولی کرتا ہےتواس کاکورٹ مارشل کیا جاتاہے،اسی طرح ایک مسلم اگر اس دین کوچھوڑ کرکوئی دوسرا دین اختبار کرتاہے تواس کابھی محاکمہ کیا جاتاہے۔ اسے مناسب وقت دیا جاتا ہےکہ وہ اپنے فیصلے پرنظرثانی کرے۔ اس کےلیے بحالتِ اسلام جنت کی بشارت دی جاتی ہےاوربحالتِ کفر جہنم کی، پھر بھی وہ اگر جہنم کی راہ ہی اختبار کرناچاہتا ہے توپھر اسے جہنم واصل کردیا جاتا ہے۔
اس سزا کا ذکر صرف حدیث میں بلکہ قرآن میں بھی ہے۔ ارشاد باری ہے:
’’ اگر یہ لوگ عہدوپیمان کے بعد بھی اپنی قسموں کو توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں تو تم بھی ان سرداران کفر سے بھڑ جاؤ۔ ان کی قسمیں کوئی چیز نہیں، ممکن ہے کہ اس طرح وه بھی باز آجائیں،، (سورہ توبہ 9؍ 12)
اورارشاد نبوی ہے:
﴿ مَن بَدَّلَ دِينَهُ فَاقتُلُوهُ﴾ ’’ جواپنے دین کوبدل دے اُسے قتل کرڈالو۔،، (صحیح البخاری ، الجہاد والسیر، حدیث: 3017 )
یعنی آیت میں اجتماعی ارتداد کاذکر ہےکہ جس پرقتال کرنےکاحکم دیا گیا ہےاور حدیث میں ہروہ فرد آجاتا ہےجومرتدہوجائے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
فتاویٰ علمائے حدیثجلد 11 |