سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(52) حدود حرم

  • 23293
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-09
  • مشاہدات : 2244

سوال

(52) حدود حرم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حدود حرم کاحدود اربعہ کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پہلی بات تویہ ہےکہ حرم کےحدود سب سےپہلے حضرت ابراہیم﷤ نےمتعین کیے تھے اورحرم کےچاروں طرف ان مقامات پرنشان لگا دیے تھے کہ جہاں حرم کی حدود ختم ہوتی ہیں،عموماً ان مقامات کی نشاندہی ان پتھروں سےہوتی تھی کہ جنہیں اس مقصد کےلیے حد حرم پرگاڑ دیا جاتاہے،انہیں انصاب کہا جاتاہے۔

ابن حجر ہیثمی مکی﷫ نےشرع مناسک الایضاح میں یہ تین اشعار درج کیےہیں جن میں حدود حرم کا مجمل بیان آگیا ہے:

وللحرم التحديد من أرض طيبة    ثلاثة اميال إذا رُمتَ إتقانه

 بجانب مدینہ حرم کی حدود تین میل پرہیں، اگرتم صحت کےساتھ جاننا چاہتےہو۔

وسبعة اميال عراق وطائف   وجدة عشرثم تسع جعرانة

 عراق وطائف کےراستے پرسات میل کےفاصلے پراورجدہ کےراستے پردس میل کےفاصلے پراور جعرانہ والے راستے پرنومیل کےفاصلے پراس کی حدود ہیں۔

ومن يمن سبع بتقديم سينبها   وقد كملت فاشكرلربك احسانه

 اوریمن کےراستے پرسات میل کےفاصلےپر( سبع جوحرف ’س، سےشروع ہوتاہے) اوریہ مکمل بیان ہوگیا تو اپنےرب کےاحسان کاشکریہ ادا کر۔( سبل الھدی والرشاد: 1؍ 201 )

تقی الدین  فاسی نےاپنی کتاب شفاء الغرام میں مشہور مصنف ازرقی کی کتاب’’ اخبار مکہ ،، سےحرم کےنشانات کی تفصیل یوں بیان کی ہےکہ یہ نشانات چھ جہت میں ہیں:

(1)   مدینہ کی جہت میں مقام تنعیم کےقریب ذات الحنظل نامی پہاڑی سےپہلے کاعلاقہ حدود حرم میں داخل ہے۔

(2)  جدہ کےراستے میں مقام حدیبیہ پر۔

(3)   یمن کےراستے میں مقام اضاءۃ لبن کےقریب جبل غراب پر۔

(4)  عرفات اورطائف کےراستے میں ذات السلم کےقریب ابن کریز کی گھاٹی پر۔

(5)  نجد اورعراق کےراستے میں بمقام مقطع یاالصفاح ، الخل کی گھاٹی پر۔

(6)   جعرانہ کےراستے میں المستوفرہ کےمقام پر۔

ان تمام مقامات پرپہلے سےنشانات موجود ہیں اور موجودہ زمانے میں امام حرم مکی شیخ محمدبن عبداللہ السبیل کی زیرنگرانی ایک کمیٹی نےنہ صرف ان نشانات  کی تجدید کی ہےبلکہ بعض جگہوں پر نئے نشانات بھی نصب کردیے ہیں۔

(ان معلومات کےلیے میں برادر عزیز ڈاکٹر وصی اللہ عباس کاشکرگزار ہوں کہ جن کی کتاب’’ المسجد الحرام ، تاریخہ واحکامہ ،، سےاستفادہ کیا۔)

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 


تبصرے