سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(51) بیعت کی شرعی حیثیت

  • 23292
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 3472

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتےہیں علمائےدین ومفتیان شرع متین بابت اس مسئلہ کےکہ پاک وہند میں پیرومرشد عوام سےجوبیعت لتیےہیں اس کی شرعی حیثیت کیاہے؟ اوریہ بات کہاں تک درست ہےکہ جس کاکوئی پیرومرشد نہ ہواس کاپیرومرشد شیطان ہوتاہےجیسا کہ عوام میں مشہورہے؟ براہ کرم کتاب وسنت کی روشنی میں وضاحت فرماکر ممنون فرمائیں۔ ( از قاری محمد ایاز الدین ،حیدرآباد ، انڈیا)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام علىٰ سيدالمرسلين محمدوعلىٰ آله واصحابه اجمعين .

جواباً عرض ہےکہ یہ سوال تفصیلی  وضاحت چاہتاہےجودرج ذیل ہے:

﴿إِنَّ اللَّهَ اشتَرىٰ مِنَ المُؤمِنينَ أَنفُسَهُم وَأَمو‌ٰلَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الجَنَّةَ يُقـٰتِلونَ فى سَبيلِ اللَّهِ فَيَقتُلونَ وَيُقتَلونَ وَعدًا عَلَيهِ حَقًّا فِى التَّورىٰةِ وَالإِنجيلِ وَالقُرءانِ وَمَن أَوفىٰ بِعَهدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاستَبشِروا بِبَيعِكُمُ الَّذى بايَعتُم بِهِ وَذ‌ٰلِكَ هُوَ الفَوزُ العَظيمُ ﴿١١١﴾... سورة التوبة

 ’’ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نےمسلمانوں سےان کی جانوں اوران کےمالوں کواس بات کےعوض خریدلیاہےکہ ان کوجنت ملے گی،وہ لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں توقتل کرتےہیں اور(خود) قتل کیے جاتےہیں، اس پرسچا وعدہ کیاگیاہے تورات،انجیل اورقرآن میں.......... اورکون ہےاللہ سےزیادہ اپنے عہد کوپورا کرنےوالا!! توتم لوگ اپنی اس بیع پرخوش ہوجاؤجوتم نےاللہ تعالیٰ سےکی ہےاوریہ بڑی کامیابی ہے۔،،

اور اصطلاحاً ( بیعت ) اس معاہدے کوکہتےہیں جو امیر کی اطاعت کےلیے کیاجاتاہے۔بیع وشراء میں خریدنے والا بیچنے والے کےہاتھ میں پیسہ تھماتاہےاوربیچنے والا مشتری کےہاتھ میں اس کی خریدکردہ چیز دیتاہے، اسی طرح بیعت کرنےوالا اپنے پیر کےہاتھ میں ہاتھ دےکر بیعت کااقرار کرتاہے۔ قرآن وسنت میں چار طرح سےاللہ کےرسولﷺ کےہاتھ پراہل ایمان کی بیعت کا ذکر ہے۔

(1)   عمومی بیعت، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿إِنَّ الَّذينَ يُبايِعونَكَ إِنَّما يُبايِعونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوقَ أَيديهِم فَمَن نَكَثَ فَإِنَّما يَنكُثُ عَلىٰ نَفسِهِ وَمَن أَوفىٰ بِما عـٰهَدَ عَلَيهُ اللَّهَ فَسَيُؤتيهِ أَجرًا عَظيمًا ﴿١٠﴾... سورة الفتح

’’ جولوگ تجھ سے بیعت کرتےہیں وہ یقینا اللہ سے بیعت کرتےہیں، اللہ کا ہاتھ ان کےہاتھوں کےاوپر ہے، پھر جوشخص عہدشکنی کرےاوراپنے نفس ہی کی عہد شکنی کرتاہے اور جوشخص اس عہد کوپورا کرے جواس نےاللہ کےساتھ کیاہے تواسے عنقریب اللہ بہت بڑا اجر دے کا۔،،

(2)    بیعت رضوان جوچھ ہجری میں صلح حدیبیہ کےموقع پرلی گئی تھی،فرمایا:

﴿ لَقَد رَضِىَ اللَّهُ عَنِ المُؤمِنينَ إِذ يُبايِعونَكَ تَحتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ ما فى قُلوبِهِم فَأَنزَلَ السَّكينَةَ عَلَيهِم وَأَثـٰبَهُم فَتحًا قَريبًا ﴿١٨﴾... سورة الفتح

’’ یقیناً اللہ تعالیٰ مومنوں سےخوش ہوگیا جب وہ درخت تلے تجھ سےبیعت کررہےتھے۔چنانچہ ان کےدلوں میں جوتھا اسے اس نےمعلوم کرلیا اوران پراطمینان نازل فرمایا اورانہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی۔،،

(3)   آپ نےفتح مکہ اوراس کےبعد عورتوں سےخاص طورپر بیعت لی،فرمایا:

﴿يـٰأَيُّهَا النَّبِىُّ إِذا جاءَكَ المُؤمِنـٰتُ يُبايِعنَكَ عَلىٰ أَن لا يُشرِكنَ بِاللَّهِ شَيـًٔا وَلا يَسرِقنَ وَلا يَزنينَ وَلا يَقتُلنَ أَولـٰدَهُنَّ وَلا يَأتينَ بِبُهتـٰنٍ يَفتَرينَهُ بَينَ أَيديهِنَّ وَأَرجُلِهِنَّ وَلا يَعصينَكَ فى مَعروفٍ فَبايِعهُنَّ وَاستَغفِر لَهُنَّ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفورٌ رَحيمٌ ﴿١٢﴾... سورة الممتحنة

’’ اے پیغمبر! جب مسلمان عورتیں آپ سے ان باتوں پر بیعت کرنے آئیں کہ وه اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی، چوری نہ کریں گی، زنا کاری نہ کریں گی، اپنی اوﻻد کو نہ مار ڈالیں گی اور کوئی ایسا بہتان نہ باندھیں گی جو خود اپنے ہاتھوں پیروں کے سامنے گھڑ لیں اور کسی نیک کام میں تیری بےحکمی نہ کریں گی تو آپ ان سے بیعت کر لیا کریں، اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کریں بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے اور معاف کرنے واﻻ ہے۔

(4)   انفرادی بیعت:  عمروبن العاص ﷜ اپنے اسلام لانے کاواقعہ بیان

کرنے کےبعد کہتےہیں:جب اللہ تعالیٰ نےمیرے دل میں اسلام کی محبت ڈال دی تو میں نبیﷺ  کےپاس آیا اور میں نےکہا: اپنا دایاں ہاتھ پھیلائیے تاکہ میں آپ کی بیعت کرسکوں۔ عمرو! کیاہوا؟،، میں نےکہا: میں ایک شرط رکھناچاہتاہوں؟ آپ ﷺ نےفرمایا: کون سی شرط؟ ،، میں نےکہا: اللہ میری مغفرت فرمائے! توآپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ کیاتمہیں معلوم نہیں کہ اسلام لانے سےپچھلے تمام گناہ ختم ہوجاتےہیں اور ایسا ہی ہجرت اورحج کرنے سےپہلے جوکچھ کیاہو، سب معاف ہوجاتاہے.(البدایہ )

٭ حاکم وقت کی اطاعت کاعہد:

                                عبادہ بن صامت ﷜ بیان کرتےہیں کہ ہم نےرسول اللہ ﷺ سےان باتوں پربیعت کی:

آپ ﷺ کی بات سنیں گےاور اطاعت کریں گے۔چاہے تنگی کاعالم ہویافراخی  کا، چاہےپسندیدہ بات ہویا ناپسندیدہ، چاہے ہمارے اوپر کسی کوترجیح ہی کیوں نہ دی گئی ہو، اس شرط کےساتھ کہ ہم صاحب امر کےساتھ جھگڑا نہیں کریں گےاور یہ کہ ہم جہاں کہیں ہوں حق  بات کہیں گےاور اللہ کےبارےمیں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہ کریں گے۔

ابن کثیر نےالبدایہ والنہایہ میں ان الفاظ کا  اضافہ کیاہےجس سےیہ معلوم ہوتاہےکہ یہ بیعت وہ ہےجو رسول اللہﷺ نےمدینہ سےآنے والوں سےمقام عقبہ (منیٰ) میں لی تھی:

’’ اور یہ کہ جب حضرت محمدﷺ یثرب آئیں توہم ان کی مدد کریں گے اورجس طرح ہم اپنی جانوں، اپنی ارواح اوراپنی اولاد کادفاع کرتےہیں ویسا ہی ان کابھی دفاع کریں گےاور ہمارے لیے جنت ہوگی۔،،( صحیح مسلم، الامارۃ،حدیث 1709 )

٭ یہ اطاعت مشروط ہے:

                حضرت ابن عمر﷜ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا:’’ ایک مسلمان کوحاکم وقت کی بات سننا اوراطاعت کرنالازم ہےچاہے پسندیدہ امرہویا ناپسندیدہ  ، الایہ کہ اسے کسی گناہ کاحکم دیا جائے، ایسی صورت میں سمع واطاعت نہیں ۔،،

بیعت کادائرہ ’’ امامت کبریٰ ،، تک محدود ہے۔ ایسے امام ہی کو بیعت کی جاسکتی ہےجوواقعی اقتدار رکھتاہو، حدود نافذ کرسکتاہو، صلح وجنگ کےمعاہدے کرسکتا ہو۔

3۔ ایک امام کی بیعت کےبعد دوسرے امام کی بیعت جائز نہیں، رسول اللہﷺ  فرماتےہیں:’’ جس کسی نے کسی امام کی بیعت کی،اس کےہاتھ میں ہاتھ دےدیا اوراپنا دل اس کےحوالے کردیا توجب تک استطاعت ہے، اس کی اطاعت کرے، پھر اگر کوئی دوسرا شخص (امامت میں ) اس کےساتھ نزاع کرےتو دوسرے شخص کوگردن ماردو۔،،

4۔ جماعت سےخروج ناجائز ہے،حضرت ابوہریرہ﷜  روایت کرتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جوشخص (امام وقت کی) اطاعت سےنکل گیا  اورجماعت کوچھوڑ گیاپھرمرگیا ،تووہ جاہلیت کی موت مرتاہےاورجوشخص کسی اندھے جھنڈے کےنیچے قتال کرتاہے، یاکسی عصبیت  کی بنا پرغصے میں آجاتاہے تواس کی موت بھی جاہلیت کی موت ہوگی۔اور جوشخص میری امت پرخروج (بغاوت ) کرتاہے،وہ نیکوکار اورگنہگار سب کومارتا ہےاورکسی مومن ےکےساتھ برائی کرنے سےباز نہیں آتا اورجس سے عہد کیا ہےاس کےعہدکوپورا نہیں کرتاتو وہ مجھ سےنہیں اور میں اس سےنہیں۔،، ( صحیح مسلم ، الامارۃ ، حدیث 1844 )

5۔ نبی اکرم ﷺ کےبعد بھی بیعت کےسلسلے میں صحابہ کرام کایہی طرز عمل تھا جس کا ذکر پہلے آچکا ہے۔

نافع بیان کرتےہیں کہ عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن مطیع کےپاس آئے اوریہ وقت جب یزید بن معاویہ کےزمانےمیں حرہ کاواقعہ ہوا۔ ابن مطیع نےکہا: ابوعبدالرحمٰن کےلیے تکیہ لگادو۔ عبداللہ بن عمر نے کہا: میں بیٹھنے کےلیے نہیں آیا،تمہیں صرف ایک حدیث سنانے آیاہوں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سےسنی ہےاور وہ یہ ہے:

’’ جس نےاپناہاتھ حلقہ اطاعت سےہٹا لیاتو وہ قیامت کےدن اللہ تعالیٰ سےاس حال میں ملے گاکہ اس کےپاس کوئی دلیل (عذر خواہی) نہ ہوگی اورجوشخص اس حال میں مرے کہ اس کی گردن میں بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرےگا۔،،

ان آیات واحادیث سےیہ باتیں معلوم ہوئیں:

(1)   اللہ کےرسولﷺ کےہاتھ پربیعت کسی دوسرے خلیفہ یاامام کی بیعت سےمختلف ہے۔ رسول اللہﷺ کےہاتھ پربیعت گویا اللہ سےبیعت ہے۔ آپ ﷺ نےعقبہ (پہاڑی گھاٹی)میں جب انصار

مدینہ سے بیعت لی تھی توگویا اس وقت آپ کےپاس اقتدار نہ تھا لیکن بحیثیت رسولﷺ آپ نے یہ بیعت لی تھی اوریہ بھی ایک خاص مقصد کےلیے تھی کہ انصار اس وقت آپ کی پوری حفاظت کریں گےجب آپ مدینہ پہنچ جائیں گے۔

(2)    مدینہ پہنچ کرآپﷺ بلاشرکت غیرے اقتدار کےمالک تھے۔

آپ ﷺ نے صحابہ سےمختلف مواقع پرسمع واطاعت کی بیعت لی اور بعض مواقع پرخاص خاص باتوں پربیعت لی۔

حدیبیہ کےمقام پرجب یہ افواہ گرم ہوئی کہ مکہ والوں نےآپﷺ کےایلچی حضرت عثمانﷺ کوشہید کردیا ہےتوآپﷺ نےاپنے پندرہ سورفقاء سےبیعت لی اوریہ اس بات پرتھی کہ وہ راہ فرار اختیار نہ کریں گےاور دوسری روایت کےمطابق یہ بیعت موت پرتھی۔

3۔ صلح حدیبیہ کےبعد جوخواتین ہجرت کرکےمدینہ آئیں یافتح مکہ کےمواقع پرمسلمان ہوئیں ان سےسورہ ممتحنہ کی آیت کےمطابق چند مخصوص باتوں پربیعت لی۔

یہ عورتیں چونکہ نئی نئی مسلمان ہوئیں تھیں، اس لیے ان چیزوں کاخاص طورپر ذکر کیا گیاجن میں وہ ایام جاہلیت میں ملوث رہی تھیں۔آپﷺ نےنومسلم مردوں سےبھی انہی باتوں پربیعت لی تھی۔

4۔ رسول اللہﷺ کی اطاعت توہرحال میں واجب ہے،بعد کےامراء وخلفاء کےلیے بھی سمع واطاعت کی بیعت کاحکم دیا گیا لیکن اس شرط کےساتھ کہ اگر وہ گناہ کی طرف بلائیں گےتوان کی اطاعت نہیں ہوگی۔

5۔ خلیفہ کی بیعت اتنی اہم ہےکہ اگرکوئی دوسرا خلافت کادعویدار پیدا ہوجائے تواس کی گردن مارنے کاحکم دیا گیا اوریہ اس لیے کہ اسلامی مملکت میں بدامنی کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور یہ تب ہی ممکن ہےجبکہ خلیفہ کےپاس مکمل اقتدار ہو، وہ حدود نافذ کرسکتاہو، جنگ اورصلح کےمعاہدے کرسکتاہو۔

6۔ خلیفہ کےہوتےہوئے اس کی اطاعت نہ کرنا اورجماعت سےخروج کرناقابل مواخذہ جرم ہیں۔ اور ایسے آدمی کی موت جاہلیت کی موت ہے۔ایسے ہی ان لوگوں کی بھی جوکسی مذموم عصبیت (برادری ،قومیت زبان، رنگ یاپارٹی )کی بنا پرقتل وقتال پرآمادہ ہوجائیں۔

بنوامیہ کےدور کےبعد جب بنوعباس سرآرائے خلافت ہوئےلیکن اندلس جیسے دور دراز علاقے میں بنوامیہ کےامراء نےاپنی حکومت قائم کرلی تو علمائے امت نےفتنہ وفساد کا دروازہ بند کرنےکےلیے اس بات پر اتفاق کیاکہ ایک وقت میں دوردراز علاقوں میں دو علیحدہ علیحدہ خلافتیں ہوسکتی ہیں اور پھر اسی اصول کےتحت بعد کےادوار میں خراسان اورہندوستان کی مملکتیں بھی برداشت کی گئیں۔

7۔ صحابہ ﷢ نےاس شخص کی بیعت نہیں کی جس نے خلیفہ وقت کےخلاف خروج کیا ہو۔ اس تمام تفصیل سےیہ تو واضح ہوگیا کہ بیعت کادائرہ’’امامت کبریٰ،، تک محدود ہے۔ ایسے امام کی بیعت ہی کی جاسکتی ہے جوواقعی اقتدار رکھتاہو، حدود نافذ کرسکتاہو، صلح وجنگ کےمعاہدے کرسکتاہو، وہ چاہے جہاد پربیعت لےیا کسی فعل خیرپریاکسی برائی سےروکنے پر۔بیعت لینا اس کاحق ہے،البتہ کسی غیر اسلامی کام پراگر وہ بیعت لیناچاہے تو تواس کی بات نہیں مانی جائے گی۔ صوفیاء کےحلقہ میں بیعت اصلاح وارشاد کےنام پر سے ایک نئی روایت ڈالی گئی جس کاخیر القرون میں کوئی اتا پتانہیں ملتا۔اگر مقصود لوگوں کی اصلاح ہےتو وہ مسجد کےمنبر سے، خطیب کےخطبات سے،معلم کی تعلیم سےاوربڑے بوڑھوں کی فہمائش  سےبھی حاصل ہوسکتی ہےاور ان سے بڑہ کر نیک لوگوں کی  صحبت اس کام کےلیے ایک نسخہ کیمیا ہے۔ شریعت کوئی ایسا حکم نہیں دیتی جوغیر ضروری اوربےفائدہ ہو۔ شیخ یامرشد جسےکوئی اختیار حاصل نہ ہو، اس کےہاتھ پر بیعت کرنے سےآخر کون سافائدہ حاصل ہو سکتاہے۔اگر بالفرض ایک لمحہ کےلیے یہ مان بھی لیا جائے کہ لوگوں کی اصلاح کےلیے یہ طریقہ کار گرہوسکتا ہےتب بھی مندرجہ ذیل قباحتوں کی بنا پر اسے قبول نہیں کیا جاسکتا:

(1)﴿وَأَنَّ هـٰذا صِر‌ٰطى مُستَقيمًا فَاتَّبِعوهُ وَلا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُم عَن سَبيلِهِ ذ‌ٰلِكُم وَصّىٰكُم بِهِ لَعَلَّكُم تَتَّقونَ ﴿١٥٣﴾... سورة الانعام

’’ اور یہ کہ یہ دین میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے سو اس راه پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وه راہیں تم کو اللہ کی راه سے جدا کردیں گی۔ اس کا تم کو اللہ تعالیٰ نے تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگاری اختیار کرو ،،

دین کاراستہ شریعت کاراستہ ہےاور اسی راستے پرچلنے ہی میں نجات ہے۔

(2)﴿وَلا تَكونوا كَالَّذينَ تَفَرَّقوا وَاختَلَفوا مِن بَعدِ ما جاءَهُمُ البَيِّنـٰتُ وَأُولـٰئِكَ لَهُم عَذابٌ عَظيمٌ ﴿١٠٥﴾... سورة آل عمران

’’ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں آ جانے کے بعد بھی تفرقہ ڈالا، اور اختلاف کیا، انہیں لوگوں کے لئے بڑا عذاب ہے ،،

مذہبی فرقہ بندی توشروع ہوہی گئی تھی کہ طریقت کےنام پر بےشمار سلاسل وجود میں آگئے اورپھر ہرسلسلہ ایک مستقل فرقہ اورجماعت بنتی گئی۔

نبی ﷺ نےتوناجی جماعت کی نشانی یہ بتائی تھی: ماأنا عليه وأصحابى:’’ جس پرمیں ہوں اورمیرےصحابہ..... ۔،، لیکن ہرصاحبِ سلسلہ اورہروہ جماعت جو بیعت کی بنیاد پرکھڑی ہوتی ہے،اسے طرز عمل سےیہ کہہ رہی ہوتی ہے: ما أنا عليه وسلسلتى أوحزبي.  یعنی جس پر میں ہوں اورمیرا طریقہ یامیری جماعت۔

چنانچہ اس سلسلے یاجماعت کوچھوڑنے کامطلب ہےکہ گویا وہ شخص اسلام سےخارج ہوگیا ہے۔یہاں مولانا ثناء اللہ امرتسری کاذکر کردہ ایک واقعہ پیش کرتا ہوں جو ان کےجریدہ اہل حدیث 17 مارچ 1924ء میں شائع ہواتھا،لکھتےہیں:

’’ یہاں پرایک واقعہ بلا کم وکاست ناظرین کےسامنے رکھتا ہوں، حافظ عزیز الدین صاحب مراد آبادی(جومیرے گمان میں مرد صالح ہیں) مولوی اشرف علی تھانوی کےمرید تھے اوربعد بیعت مسئلہ تقلید کی تحقیق کرکے مقلد سےغیر مقلد ہوگئے مگر مولانا مرحوم کےحق میں انہوں نے کسی قسم کی بدگمانی نہیں کی۔

اس پر بھی مولانا کا ایک پوسٹ کارڈ(جو میں نے بچشم خود دیکھا ہے) موصوف کوپہنچا جس کامضمون یہ تھا کہ غیرمقلد ہوجانے کی وجہ سے میں تم کواپنے حلقہ بیعت سےخارج کرتاہوں۔اب میرا  تمہاراپیری مریدی کاتعلق نہیں رہا۔ (او کمال قال) ایسا کیوں ہوا؟ اس کاجواب ہماری سمجھ سےبالاترہے۔،،

(3)شیخ سےبیعت کرنا عذاب قبر سے چھٹکارا دلاتا ہے۔ پہلے یہ واقعہ پڑھیے اور پھر تبصرہ ملاحظہ فرمائیے:

’’ شیخ الاسلام چشتی اجمیری قدس سرہ العزیز کی یہ رسم تھی کہ جوکوئی ہمسایہ میں سے اس دنیا سےنقل (انتقال )کرتا، اس کےجنازے کےساتھ جاتے اورخلق کےلوٹ جانے کےبعد اس کی قبر پربیٹھتے اورجودرودایسے وقت میں پڑھتے آئے ہیں پڑھتے، پھر وہاں سے آتے،چنانچہ اجمیرمیں آپ کےہمسایوں میں سے ایک نے انتقال کیا۔ دستور کےمطابق آپ جنازے کےساتھ گئے۔جب اسے دفن کرچکے، خلق لوٹ آئی اورخواجہ وہیں  ٹھہرگئے۔تھوڑی دیر کےبعد آپ اٹھ گئے۔ شیخ الاسلام قطب الدین فرماتےہیں کہ میں آپ کےساتھ تھا، میں نےدیکھا کہ دم بدم آپ کا رنگ متغیر ہوا، پھر اسی وقت برقرارہوگیا۔ جب آپ  وہاں سےگھڑے ہوئے توفرمایا: الحمدللہ بیعت بڑی اچھی چیز ہے۔ شیخ الاسلام قطب الدین اوشی نےآپ سےسوال کیا تو آپ نےفرمایا:

 جب لوگ اس کودفن کرکے چلے گئے تومیں بیٹھا ہواتھا۔ میں نےدیکھا کہ عذاب کےفرشتے آئے اورانہوں نے کہاکہ اس کوعذاب کریں۔اسی وقت شیخ ہارونی(آپ کےپیرصاحب) قدس سرہ العزیز حاضر ہوئ اورکہا کہ یہ شخص میرے مریدوں میں سے ہے۔ جب خواجہ نےفرمایا: بیشک اگرچہ برخلاف تھا مگر چونکہ اس نے اپنے آپ کواس فقیر کےپلے باندھا تھاتومیں نہیں چاہتاکہ اس پر عذاب کیا جائے۔ فرمان ہوا: اے فرشتو! شیخ کےمرید سے ہاتھ اٹھاؤ۔

میں نے اس کو بخش دیا۔ پھر شیخ الاسلام کی آنکھ میں آنسوبھرآئے اورفرمانےلگے: اپنے آپ کوکسی کےپلے باندھنا بہت ہی اچھی چیز ہے۔(شریعت وطریقت ازمولانا عبدالرحمٰن کیلانی،ص 305.)

سبحان اللہ ! نہ شریعت پرعمل کرنے کی ضرورت، نہ کتاب وسنت کا کوئی لحاظ،شیخ کی بیعت جنت کاپروانہ ہوگیا۔

اورپھر جس طرح سےیہاں کتاب وسنت کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں وہ بھی ملاحظہ فرمالیں۔ اللہ عالم الغیب ہےلیکن یہاں شیخ عذاب قبر کاسارا انتظام دیکھ رہےہیں۔

اللہ کےرسولﷺ فرشتہ جبرئیل سےہم کلام ہوتےتھے، یہاں شیخ عذاب کےفرشتوں سے مجادلہ کررہےہیں۔ حدیث کےمطابق اببیاء اورصلحاء کوقیامت کےدن شفاعت کاموقع دیا جائےگا، یہاں عین عذاب قبر سےپہلے ہی شفاعت کی جارہی ہے جوفوراً ہی قبولیت  کےمراحل طے کرگئی۔

جس صحیح حدیث میں نبی ﷺ کےدوقبروں پرسے گزرنے، دونون کوعذاب قبر ہونے، آپ کےان دونوں قبروں پرٹہنی لگانے کاواقعہ نقل ہوا ہےاورپھر ٹہنیوں کےخشک ہونےتک ان کےعذاب میں تخفیف کاذکر ہے، اے ذرا ذہن میں تازہ کیجئے۔ نبیﷺ جنہیں الہام الہٰی سےدواشخاص کےعذاب قبر کےبارے میں بتایاگیا، وہ یقیناً مسلمان تھے، رسول اللہﷺ کی بیعت میں داخل تھے لیکن انہیں تویہ بیعت کام نہ آئی یہاں تک کہ رسولﷺ  نےان کےلیے دعا کی اوربطور علامت وہ ٹہنیاں بھی لگائیں کہ جن کےخشک ہونےتک دونوں کےعذاب میں تخفیف کی گئی تھی، کیا یہ ایک قباحت ہی کافی نہیں کہ جس سے مزعومہ بیعت کی قلعی کھل جاتی ہے۔

(4)طریقت اوربیعت چونکہ لازم وملزوم ہیں، چنانچہ اس تعلق سےبھی نئے نئے شگوفے کھلتےہیں۔ مولانا عبدالرحمن کیلانی لکھتےہیں:’’ بیعت کےسلسلے میں صوفیہ نےایک اور شاندار کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ انہوں نے جب دیکھا کہ اویس قرنی نےرسول اللہﷺ  کونہ دیکھا، نہ بیعت کی توان کےارواح کی آپس میں بیعت کرادی اوراسے نسبت اویسیہ کانام دیا۔

شیخ کی فلاں شیخ سے ملاقات ہی ثابت نہیں یا پیرکی وفات کےبہت عرصہ بعد مرید کی پیدائش ہوئی ہوتو وہ یہی نسبت اویسیہ قائم کرکے اپنا سلسلہ جاری فرما کرکام چلا لیے ہیں۔،،

(5)اپنی غلط رسموں کوجائز کرنےکےلیے قرآن وسنت کی مخصوص تاویلات فاسدہ کی جاتی ہیں کہ انسان اپنا سرپکڑ کربیٹھ جاتاہے۔ ابن جوزی ،محمد بن طاہر کےحوالے سے اپنی کتاب میں لکھتےہیں:’’ پھٹے ہوئے کپڑے پہننے کےبارے میں شیخ کامرید پرشرط رکھنا۔،، پھر انہوں نے اس بات کےضمن میں بطوردلیل عبادہ بن صامت کی یہ حدیث پیش کی ہے:’’ ہم نے رسول اللہﷺ  کےہاتھ پربیعت کی کہ ہم تنگی اور فراخی ہرحال میں سمع واطاعت کریں گے۔،، دیکھیے کیاخوب نکتہ نکالاہے۔ کہاں شیخ کا مرید پرمذکورہ شرط رکھنا اورکہاں اسے رسول اللہﷺ  کی بیعت اسلام سےجوڑنا جوکہ نہ صرف لازم ہےبلکہ خود رسول کی اطاعت بھی واجب ہے۔

(6)اگر امت مسلمہ ایک بڑے جہاز کی مانند ہےتویہ مختلف فرقے اورطریقے چھوٹی چھوٹی کشتیوں کی مانند۔ شدید طوفان کی صورت میں جہاز توبچ جاتاہے لیکن چھوٹی کشتیاں غرق ہوجاتی ہیں۔ تعجب ہےکہ کتاب وسنت کےجہاز کوچھوڑ کر لوگ ان بجروں ( مخصوص گول کشتیوں) پرکیوں سوار ہوتےہیں جبکہ سمندر میں تلاطم ہی تلاطم ہےاور کشتی کسی وقت بھی ڈوب سکتی ہے۔

آخر میں ان چند شبہات کاجائزہ بھی لےلیا جائے جوقائلین  بیعت کی طرف سے پیش کیے جاتےہیں:

1۔ ’’ تین آدمی بھی سفر کررہےہوں  توایک کوامیر بنانے کاحکم ہے،چہ جائیکہ پوری جماعت ہواور اس کاامیر نہ ہو۔،،

سفر میں امیر بنانا رسول اللہﷺ کی حدیث سےثابت ہےلیکن وہاں بیعت کا ذکر نہیں ہے اوریہ امارت سفر کےختم ہونے کےساتھ ہی تمام ہوجاتی ہے۔ گویا وقتی طورپر نظم وضبط کاپابند بنانے کےلیے ایسے پیر کی اطاعت لازمی قرار دی گئی لیکن اسے امامت کبریٰ پرقیاس نہیں کیا جاسکتا، جہاں دوسرے مدعی امامت کوبرداشت نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی گردن ماردی جاتی ہے۔

2۔ ’’ بیعت اصلاح وارشاد کونماز کی امامت کی طرح سمجھا جائے، یعنی امامت صغریٰ کوامامت کبریٰ سےجدا نہیں کیاجاسکتا۔،،

امامت سفر کی طرح نماز کی امامت بھی نماز کےساتھ ختم ہوجاتی ہے، جونہی امامت نےالسلام علیکم ورحمۃ اللہ کہا، مقتدی اورامام کاتعلق ختم ہوگیا۔دوسرا یہ کہ خلیفہ وقت کی موجودگی میں کیا صرف ایک ہی نماز باجماعت کااہتمام کیا جاتاتھا یا ہر علاقے بلکہ ہرمحلے کی مسجد میں نماز نہیں ہوتی تھی؟ حضرت معاذ بن جبل ﷜ عشاء کی نماز نبی کریمﷺ کےساتھ پڑھتےاور پھر عوالی جاکر اہل محلہ کونماز پڑھایا کرتے تھے۔

لیکن امام وقت یاخلیفہ سےبیعت کرنے کےبعد کیاہرشہر یاہرمحلہ میں جزوی بیعت ہواکرتی تھی، جوپیر ومرشد اپنے لیے روارکھتا ہو؟ کم از کم خیرالقرون میں توایسی بیعت کانام ونشان نہ تھا، قرون ثلاثہ(زمانہ رسول، زمانہ صحابہ،زمانہ تابعین اورتبع تابعین)  کےبعد جہاں فرقہ بازی کی بدعت پیدا ہوئی وہاں تصوف کےسلسلوں کےنام پرمشائخ کےہاتھ پربیعت اصلاح وارشاد کی بدعت بھی وجود پذیر ہوئی۔

3۔ جوشخص اس حال میں مراکہ اس کی گردن میں طوق بیعت نہ تھا  وہ جاہلیت کی موت مرا۔،، (الحدیث )

(صحیح مسلم ، الامارۃ ، حدیث 1851 )

شریعت کےتمام احکامات استطاعت سےمشروط ہیں۔ ایک شخص حج کی استطاعت رکھتا ہولیکن بیت اللہ تک پہنچے کےتمام راستے مسدود ہوں، چاہے جنگ وجدال کی بنا پر یا کسی دوسرے سبب کی بنا پر توایسے شخص پرحج کرنا واجب نہ ہوگا جب تک کہ راستےکھل نہ جائیں، حالانکہ ایسی ہی وعید حج پرنہ جانے والوں کےلیے بھی ہے۔ایسے ہی زکاۃ ادانہ کرنےوالے کےلیے سخت وعید ہےلیکن جس شخص کےپاس اتنا مال ہی نہ ہوکہ جس میں  زکاۃ واجب ہوتو وہ وزکاۃ دینے سےمستثنیٰ ہے۔ وضو میں ہاتھ پیردھونے لازم ہیں لیکن اگر کسی کاہاتھ  یا پیرکٹا ہوا ہوتووہ اسے کیسے دھوئےگا؟

بعینہ اگر ایسا خلیفہ موجود ہوجو صاحب اقتدار ہو، حدود کونافذ کرسکتاہو، صلح وجنگ کےجھنڈے بلند کرسکتاہو، قرآن وسنت کونافذکرسکتا ہوتوجہاں جہاں اس کا اقتدار ہےوہاں تمام لوگوں پراس کی بیعت لازم ہے، نہ بیعت کریں کےتو بموجب حدیث مذکورہ جاہلیت کی موت مریں گے۔لیکن اگر خلیفہ سرے سے موجود ہی نہ ہوتو پھر بیعت کا محل نہ ہونے کی بنا پر یہ حکم بھی ساقط ہوجائے گااور ایسے ہی وہ لوگ جوایک خلیفہ کےدائرے اقتدار سےخارج رہتےہوں ان کےلیے بھی ایسے خلیفہ کی بیعت لازم نہ ہوگی۔

1924ء میں خلافت عثمانیہ کےختم کیے جانے کےبعد اول تومسلم ممالک پراستعمار کاغلبہ ہوگیا۔ خود ہندوستان بھی ڈیڑھ سوسال انگریزی استعمار کاہراول دستہ بنا رہا توجب خلیفہ ہی نہ ہ رہا توبیعت کس کےہاتھ پرکی جاتی۔ مسلم ممالک آزاد ہوناشروع ہوئے تو اکثر نےجمہوری یاآمرانہ نظام اپنایا۔ بیعت کےاس طریقہ کوخیرآباد کہا جو اہل حل وعقد کی مشاورت سےمنعقد ہوتی ہے، اس لیےنظام بیعت بھی معطل ہوتاچلا گیا۔ جہاں جہاں کسی درجے میں بھی ایسا نظام قائم ہوجوکتاب وسنت کونافذ کرتاہو، وہاں حاکم وقت کےہاتھ پربیعت کےبعد ہی اس کی حکومت کاآغاز ہوتاہے۔

4۔ بیعت اصلاح وارشاد کاایک عہد نامہ کی طرح اعتبار کیاجائے توکیا حرج ہے؟

یہاں بھی یہی کہا جائے گا کہ سلف صالحین میں اس کارواج نہ تھا۔

ابونعیم اصبہانی اپنی کتاب حلیۃ الاولیاء میں اپنی اسناد ذکر کرنے کےبعد مطرف بن عبداللہ بن شخیر(تابعی ) کی یہ روایت بیان کرتےہیں کہ ہم زیدبن صوحان کےپاس جایا کرتے  تھے جو کہا کرتےتھے:’’ اے اللہ کےبندو! اکرام کرو اور(عمل میں) خوبصورتی پیدا کرو! بندے اللہ تک ان دو وسیلوں سےپہنچ سکتےہیں ، خوف وطمع ۔،،

 ایک دن ہم ان کےپاس آئے تودیکھا کہ(شاگردوں نے) ایک عبارت اس مضممون کی لکھی ہے:’’ اللہ ہمارا رب ہے،محمدﷺ ہمارے نبی ہیں، قرآن ہمارا امام ہے، جوہمارے ساتھ ہوگا ہم اس کےساتھ ہیں اور اس کےلیے ہیں۔ جوہمارے مخالف ہوگا، ہمارا ہاتھ اس کےخلاف ہوگا اورہم ایسا ویسا کریں گے۔

پھر انہوں نے یہ مکتوب لیا اور ہرشخص سےباری باری یہ کہا: اےفلاں ! کیا تم اس بات کااقرار کرتےہو؟ یہاں تک کہ میری باری آگئی اور انہوں نے کہا: اے لڑکے! تم بھی اقرار کرتےہو؟ میں نےکہا: نہیں ! کہنے لگے: اس لڑکے کےبارےمیں جلد بازی نہ کرو۔ پھرمجھ سےپوچھا:بچے ! تم کیاکہنا چاہتے ہو، میں نےکہا: اللہ اپنی کتاب میں مجھ سےایک عہد لیا ہےاور میں اس عہد کےبعد کسی اورعہد کاپابند نہیں ہوں۔ اقرار نہ کیا۔ میں نےمطرف سےپوچھا: تمہاری تعداد کیاتھی؟ بولے: تیس کےقریب آدمی ہوں گے۔

امام ابن تیمیہ نےاس مسئلے کوبڑی وضاحت سےبیان کیا ہے۔ وہ ایک فتویٰ کے ضمن میں کہتےہیں :’’ اگر لوگ اللہ اور اس کےرسول کی اطاعت اورنیکی وتقویٰ پر تعاون کرنے پر جمع ہوں تو بھی ہرشخص دوسرے شخص کےساتھ ہربات میں نہ ہوگا بلکہ صرف اس حدتک جہاں اللہ اور اس کےرسول کی اطاعت  ہوگی۔ اگر اللہ اوراس کےرسول کی نافرمانی ہورہی ہوتو وہ ساتھ نہ دے گا۔ یہ لوگ سچائی،انصاف،احسان، امربالمعروف ، نہی عن المنکر، مظلومین کی مدد اورپھرہراس کام میں ایک دوسرے کےساتھ تعاون کریں گے جواللہ اوراس کےرسول کوپسند ہیں۔ وہ نہ ظلم کرنے پر، نہ کسی جاہلی عصبیت پر، نہ خواہشات ہی کی پیروی پرتعاون کریں گے،نہ فرقہ بازی اور اختلاف  ہی پر اور نہ اپنی کمرکےگردپیٹی باندھ کر کسی شخص کی ہربات ماننے پرتعاون کریں گے اور نہ کسی ایسے حلف نامے ہی میں شریک ہوں گےجواللہ اوراس کےرسول کےحکم کےخلاف ہو۔

ان میں سےکسی شخص کےلیے جائز نہیں کہ اپنے یاکسی دوسرے کےاستاد کی خاطر اپنی کمر کےگرد پیٹی باندھے جیسے سوال میں پوچھا گیا۔ کسی ایک معین شخص کےلیے پیٹی باندھنا یا اس کی طرف نسبت کرنا، جاہلیت کی بدعات میں سے ہےاوران حلف ناموں کی طرح ہےجوجاہلیت میں کیا کرتےتھےیا قیس ویمن کی فرقہ بازیوں  کی طرح ہے۔ اگر اس باندھنے سےمراد بروتقویٰ پرتعاون ہے تواللہ اوراس کےرسول نےویسے ہی اس کاحکم دیا ہے، بغیر کسی ایسے بندھن کے۔ اوراگر اس سےمراد گناہ اورسرکشی کےکاموں میں تعاون ہےتو وہ ویسے ہی حرام ہے،یعنی اگر اس طرح خیر کا کام کرنامقصود ہےتواللہ اوراس کےرسول کےاشادات میں اس کام کی پوری رہنمائی ملتی ہے۔ استاد کےساتھ اس نسبت کی کوئی ضرورت نہیں اوراگر برائی مقصود ہےتواللہ اوراس کےرسول اسے حرام قرار دے چکے ہیں۔،،

کسی کےلیے یہ جائز نہیں کہ کسی دوسرے شخص سےاپنی ہربات منوانے پرعہد لےیااس بات پرکہ جس کا میں  دوست ہوں اس سےدوستی رکھوں اورجس کامیں  دشمن ہوں اس سےدشمنی رکھو بلکہ ایسا کرنے والا چنگیز  خان اوراس کےحواریوں جیسا ہے۔ اور جوہراس شخص کواپنا دوست اورحمایتی سمجھتےہیں جوان کی ہاں  میںہاں ملاتا ہو اورہراس شخص کواپنا بدترین دشمن سمجھتے ہیں جوان کی مخالفت کرتاہو بلکہ انہیں اللہ اوراس کےرسول کےساتھ کیا ہوا عہد یادرکھنا چاہیے کہ اطاعت اللہ کی ہےاور اس کےرسول کی۔ صرف وہی کام کرتاہے جس کاحکم اللہ اور اس کےرسول نےدی ہے، ہراس چیز کوحرام ٹھہراناہے جسے اللہ اوراس کےرسول نےحرام ٹھہرایاہے، وہ  اپنے اساتذہ (و مشائخ) کےحقوق کاضرور خیال رکھیں ،اتنا ہی جتنا اللہ اوراس کےرسول نےخیال رکھنے کاحکم دیا ہے۔اگر کسی کااستاد مظلوم ہوتواس کی مدد کرے، اگرظلم کرےتو اس کی ظلم پراعانت نہ کرے بلکہ اسےظلم کرنےسےروکے جیسا کہ صحیح حدیث سےثابت ہے۔نبی ﷺ  نےارشاد فرمایا: ’’ اپنےبھائی  کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہویا مظلوم۔،،

آپ سےکہا کیا: مظلوم ہوتو ہم اس کی مدد کرتےہیں لیکن ظالم ہوتو اس کی مدد کیسے ہوگی؟ آپ ﷺ نےارشاد فرمایا:’’ تم اسے  ظلم کرنے سےروکویہی اس کی مدد ہے۔،، ( صحیح البخاری، الاکراہ ، حدیث 6952 )

 باقی یہ کہنا کہ جس کاکوئی پیر نہیں اس کا پیر ومرشد شیطان ہےتویہ بات اس شخص کےلیے درست ہےجس نےنبیﷺ  کی اطاعت کاطوق اپنی گردن سے اتار پھینکا ہولیکن وہ شخص جوصرف اپنی نسبت اللہ کےرسول ﷺ اوران کی حدیث کی طرف کرتا ہو،اسے شیطان کی طرف منسوب کرنا، اپنےایمان کوضائع کرناہے۔

ما أنا عليه واصحابى  ( جس طریقے پرمیں ( محمدمصطفیٰﷺ  ) اور میر ے صحابہ قائم ہیں۔) کا تقاضا یہی ہےکہ ہراس عمل سےاجتناب کیاجائے جس پرمہرنبوت ثبت نہ ہواورجسے صحابہ کرام نےکیا نہ ہو۔

اللہ  تعالیٰ تمام کلمہ کوحضرات کواللہ اوراس کےرسول کی اطاعت کےعہد کوپورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.......... آمین!

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 


ماخذ:مستند کتب فتاویٰ