رسول اللہ ﷺ پر جادو کیے جانے والی حدیث خبرواحدہے۔کیاخبرواحدمحدثین کی نظر میں قابل استدلال ہے؟
اللہ تعالیٰ نےرسول اللہﷺ کوخاص طورپر رسالت کےلیے چنا، لہذا کیاآپﷺ پرجادو کیا کیاجانا ممکن ہے؟
آپ نےدونکات کی وضاحت چاہی ہے:
1۔ رسول اللہﷺ پرجادو کیے جانےوالی حدیث خبرواحدہےاورخبرواحد محدثین کی نظر میں کچھ اہمیت نہیں رکھتی۔
2۔ اللہ تعالیٰ نےرسول اللہﷺ کوخاصل طورپر رسالت کےلیےچنا، اس لیے ان پرجادوکا کیا جانا محال ہے۔
عام طورپر احادیث کومتواتر اور خبرواحد یاآحاد میں تقسیم کیاجاتاہے۔متواتر سےمراد وہ احادیث ہیں جنہیں صحابہ(اورسندکےدیگر راویوں ) کی ایک کثیر تعداد نےروایت کیاہے، اتنی تعداد کہ ان کا کسی جھوٹ پر اتفاق کرلینا ناممکن ہو۔
آحاد سےمراد عام طورپر صرف ایک ہی راوی روایت کررہا ہوتواسےغریب، دو کر رہےہوں تواسےعزیز اور تین یازائد کرررہےہوں تواسے مشہور کہا جاتاہے۔
تمام محدثین کےنزدیک خبرواحد حجب ہے، بشرطیکہ اس میں صحیح یاحسن حدیث کی شرائط پائی جاتی ہوں،یعنی حدیث کی سند راوی سےلے کرنبی کریمﷺ تک متصل ہو راوی ثقہ اورقابل اعتماد ہو،اچھے حافظے کامالک ہو،اپنے سےزیادہ ثقہ راوی کی اپنے بیان میں مخالفت نہ کررہاہو اور نہ حدیث میں کوئی اورعلت(کمزوری) ہی ہو، جسے محدثین عموماً جان لیتے ہیں۔
تابعین کےزمانےمیں ایک مشہور بزرگ حسن بصری گزرےہیں۔ ان کے حلقہ درس میں ایک شخص واصل بن عطاء ان سےاختلاف کرنے کےبعد علیحدہ ہوگیا۔
عربی میں علیحدہ ہونےکےلیے لفظ اعتزال استعمال ہوتاہے، اس لیے واصل بن عطاء اوراس کےماننے والے معتزلہ کہلائے۔انہوں نے سب سے پہلے یہ شوشہ چھوڑا کہ خبرواحد عقائدمیں حجت نہیں، البتہ اعمال وافعال میں حجت ہے۔ اپنی رائے کی بنا پر انہوں نےصحیح احادیث کوبھی ماننے سےانکار کردیا،اگروہ خبرواحد اورکسی عقیدے کی بات ثابت کررہی ہوں۔
ان کےپاس اصول کی زد میں اہل سنت کےکئی عقائد آگئے جنہیں وہ نہیں مانتے، جیسے عذاب قبر، واقعہ معراج، قیامت سےقبل مسیح کادوبارہ نزول،دجال کاظہور وغیرہ وغیرہ۔
محدثین اورخاص طورپر امام شافعی، نےاپنی مشہور زمانہ تالیف’’الرسالہ،، میں خبرواحد کی حجیب پرطویل بحث کی ہے اوریہ ثابت کیاہےکہ اگرحدیث صحیح ہوتووہ عقیدے میں بھی حجت ہےاورعمل کےلیےبھی حجت ہے،یعنی اصل حجت حدیث کا صحیح ہوناہے۔ اگراس کا صحیح ہوناثابت ہوجائے توچاہے اس سے عقیدہ ثابت ہویا کوئی عمل، دونوں طرح وہ حجت ہوگی۔اوریہی بات ہمیں رسول اللہﷺ کےطرز عمل سےملتی ہے،ملاحظہ ہو:
1۔ اللہ کےرسول ﷺ پروحی لےکر آنےوالے جبرائیل تھےجن کےذریعے سےآپ تک قرآن پہنچا، قرآن عقائد واعمال سب کا مجموعہ ہے۔رسول اللہ ﷺ نےایک فرشتے کی روایت قرآن کوقبول کیا۔
2۔ صحابہ کرام نےصرف نبی کریمﷺ سےقرآن سنااور اس پرایمان لائے۔
3۔ رسول اللہﷺ نےمختلف حکمرانوں اوربادشاہوں کےپاس خطوط بھیجے جنہیں عموماً ایک ایک آدمی کےذریعے سےارسال کیاگیا۔ ان خطوط میں ان حکمرانوں سےاسلام قبول کرنے، یعنی اپنا عقیدہ تبدیل کرنےکا مطالعہ کیاگیاتھا۔اگر یہ حکمران بھی معتزلہ جیسی روش اپناتےتو کہہ سکتے تھےکہ ہم ایک آدمی کےذریعے سےلائے گئے پیغام کوکیسے قبول کرسکتےہیں ؟ انہوں نے اپنی ہٹ دھرمی اورتکبر کی بنا پر ایمان لانا پسند نہیں کیالیکن نبی اکرمﷺ کےفرستادہ کوصرف ایک شخص ہونے کی بنا پرنہیں جھٹلایا۔
4۔ رسول اللہﷺ نےمعاذبن جبل کویمن بھیجا اوران سےکہا:تم اہل کتاب کےپاس جارہے ہو،انہیں سب سے پہلے’’لا الہ الا اللہ ،، کی دعوت دینا۔ اگروہ قبول کرلیں تو پھر نماز کی فرضیت کےبارے میں بتانا اوراگر اسے بھی قبول کرلیں توپھرزکاۃ کےبارے میں بتانا۔ یعنی آپ نے اہل یمن کوعقیدہ تبدیل کرنے اور پھر کچھ احکامات پرعمل کرنے ،دونوں امور کی دعوت صرف ایک شخص کےہاتھ میں بھیجی۔ اگر ایک شخص کی روایت حجت نہ ہوتی تو رسول اللہﷺ بجائے ایک صحابی کے، دس بارہ بھیجا کرتےتاکہ ان کی روایت تواترتک پہنچ جائے۔
5۔ نبی کریم ﷺ نےتحویل قبلہ کا حکم نازل ہونے کےبعد ایک صحابی کوبھیجا کہ وہ مختلف مساجد میں مسلمانوں کواس حکم سے آگاہ کردیں۔ مدینہ کی پرانی مساجد میں سے ایک مسجد کومسجد قبلتین کہا جاتاہے۔ یہ وہ مسجد ہےجس میں لوگ نماز باجماعت پڑھ رہے تھے کہ نبی کریمﷺ کامنادی وہا پہنچا۔ جونہی اس نےآپ ﷺ کاحکم سنایا، تمام کےتما لوگ شمال سےجنوب کی طرف قبلہ کی طرف رخ ہوگئے۔(صحیح البخاری ، الصلاۃ ،حدیث 403 ، وصحیح مسلم ، المساجد ، حدیث 525. 526 جس مسجد میں اعلان کرنے کاواقعہ پیش آیا تھا، وہ مسجد قباء ہے۔ مسجد قبلتین کےنام سےجومسجد ہے،اس کےبارےمیں معروف ہےکہ اس میں رسول اللہﷺ نماز ظہر پڑھ رہےتھےکہ اسی عالم میں تحویل قبلہ کاحکم آگیا تو آپ نے اپنا رخ تبدیل کرلیا، اس لیے اسےمسجد قبلتین کہتےہیں۔ ( الطبقات الکبریٰ لابن سعد ، 2؍ 242 ،) لیکن اسکی سند نہایت ضعیف ہےکیونکہ اس میں محمدبن عمرواقدی کذاب اورمتروک راوی ہے)
گویا انہوں نے ایک شخص کوخبر کوفوراً تسلیم کیا۔
متواتر صرف قرآن ہےاور احادیث کی ایک قلیل تعداد۔ اسلام کےموٹے موٹے مظاہر،جیسے اذان، پنج وقتہ نماز اورنماز باجماعت بھی تواتر عملی کےذریعے سےہم تک پہنچے ہیں لیکن دین کااکثر حصہ احادیث کےذریعے سےہم تک پہنچا ہےجوکہ آحاد ہیں۔
آحاد احادیث کواپنی مرضی یااپنی اپنی سمجھ کی بنا پر چھوڑدینا دین کےاکثر حصے کودریا برد کرنےکےمترادف ہے،اس لیے اگر کوئی بات، چاہے اس کاتعلق عقیدے سےہو یاعملی احکام سے،وصحیح یاحسن حدیث سےثابت ہوجاتی ہےتو اسے مانے بغیرچارہ نہیں۔
شادی شدہ زانی کی سزا سنگسار کرناہے۔ یہ سزا قرآن سےثابت نہیں لیکن رسول اللہ ﷺ کےقول اورفعل سےثابت ہے۔ آحاد حدیث کوقبول نہ کرنے والے اس سزا کوبھی منکر ہیں ، گوکہ اس سزا کا تعلق ایک عملی حکم سےہےنہ کہ عقیدے سے۔
بعض اوقات تومنکرآحادکواپنی مصلحت کےلیے خبرواحد قبول کرنی پڑتی ہے،مثال کےطورپر ایک منکر خبرواحد سےسوال کریں کہ وہ کیسے ثابت کرسکتاہےکہ اس کاباپ واقعی اس کاباپ ہے؟ اس کےپاس دنی میں صرف ایک شخص ہےجویہ بتا سکتاہےکہ اس کاباپ کون ہے؟ اوروہ ہےاس کی ماں۔ اگر اس کی ماں انکار کردے کہ فلاں شخص تمہارا باپ نہیں بلکہ تمہارا باپ کوئی اور ہےتواس کےپاس انسانوں میں سے کوئی دوسرا شخص ہوسکتاہے جوماں کی بات کوجھٹلاسکے؟
اب آئیے بخاری ومسلم کی بیان کردہ ان احادیث کی طرف جن میں رسول اللہﷺ پرجادو کیے جانے کاواقعہ ذکر کیا گیاہے۔چونکہ یہ مسئلہ کافی تفصیل طلب ہے، اس لیے میں آپ کومشورہ دوں گا کہ تفہیم القرآن (از مولانا ابوالاعلیٰ مودودی) کی آخری جلد میں معوذتین کےضمن میں اس بحث کوملاحظہ فرمالیں جس میں اس حدیث پراٹھائے گئے تمام اعتراضات کاجواب آگیا ہے۔
مولانا کی بحث میں مندرجہ ذیل نکات نکھر کرسامنے آگئے ہیں:
(1) اس حدیث کوبیان کرنےوالی صرف عائشہ ؓ ہی نہیں بلکہ زید بن ارقم اور چند دوسرے صحابہ بھی ہیں ۔
(2) بخاری اور مسلم نےاس حدیث کواپنے مجموعہ احادیث میں جگہ دی ہے،جس سےاس حدیث کی صحت کامرتبہ واضح ہوجاتاہے۔
(3) ضروری نہیں کہ ایک سورت ایک ہی دفعہ نازل ہوبلکہ اسے دوبارہ بھی کسی خاص مقصد کےلیےنازل کیا جاسکتاہے،جیسے معوذتین ،پہلے وہ مکہ میں نازل ہوئیں اور جب آپ پرجادو کاواقعہ ہوا تو سحر کےعلاج کےطورپر دوبارہ ان کانزول ہوا۔
(4) سحر کی کئی قسمیں ہیں : حضرت موسیٰ اور مصر کےجادو گروں کےدرمیان مقابلہ می سحر کی وہ کیفیت تھی جسے تخییل کہا جاتاہے،یعنی جادو گروں کی رسیاں حرکت نہیں کررہی تھیں بلکہ آنکھوں کوایسا دکھائی دیا جارہاتھا۔
(5) رسول اللہ ﷺ پرجو جادو کیاگیا تھا وہ مرض کی قسم کاتھا،یعنی آپ کوگمان ہوتا تھاکہ آپ اپنی بیویوں کےپاس گئے ہیں(جنسی تعلق کےلیے) لیکن حقیقت میں ایسا نہ تھا۔
(6) انبیاء کومرض لاحق ہوسکتاہے، جیسے ان پرزہر کااثر ہوسکتاہے۔خیبر میں ایک یہودی عورت نےآپ کوزہر آلودہ کھانا کھلانے کی کوشش کی تھی، گوآپ نےاللہ کےبتائے جانےپرنوالہ اگل دیا تھا لیکن زہر اتنا تیز تھاکہ آپ نےمرض موت میں بھی اس بات کا ذکر کیا تھا کہ مجھے اب تک اس زہر کےاثرسےنجات نہیں ملی جوخیبر کی یہودی عورت نےکھلایا تھا۔ ایسا ہی دوسرے عوارض کامسئلہ ہے،جیسے آپ کا بخارمیں مبتلا ہونا، جنگ احد میں داندان مبارک کوٹوٹنا وغیرہ ۔
ظاہری مرض کےعلاج کےلیے دوا استعمال کی جاتی ہے۔مرض نادیدہ ہوتو پھر رقیہ (جھاڑ پھونک کرنا) ہی علاج ہے، بشرطیکہ قرآن سےہویاسنت سے۔
(6)کفار نےآپ ﷺ کےبارے میں مسحور کالفظ استعمال کیا:
’’ تم ایک مسحور شخص ہی کی پیروی کرتےہو۔،،
یہاں ان کی مسحور سےمراد پاگل پن ہے، یعنی رسول اللہ ﷺ جودعوائے نبوت کررہےہیں یاقرآن سنارہےہیں، وہ سب نعوذ باللہ عقل کےزائل ہونے کی بناپرہے۔
یہ بات توکفار نےمکہ مکرمہ ہی میں کہہ ڈالی تھی۔ آپ ﷺ پرجادو کیے جانے کاواقعہ توبہت بعد میں سن 7 ہجری کےقریب پیش آیا۔ اس کےبعد آپ چار سال اورزندہ رہے۔ اگر اس واقعہ کی بنا پر آپ کومطعون کیاجاتاتواس قسم کاالزام ان آخری چار سالوں میں لگایا جاتا۔
صاحب تفہیم القرآن کےمضمون کاخلاصہ آپ نےملاحظہ فرمالیا، میں دوباتوں کا مزید اضافہ کرتاہوں:
(7)ابن قیم بدائع الفوائد میں لکھتےہیں :’’ رہا یہ کہنا کہ انبیاء پرجادو کاہونا، اللہ تعالیٰ کےانہیں چن لینے اور ان کی حفاظت کرنے کےمنافی ہےتوجان لیجیے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت کرتےہیں اور ان کی مدد کرتےہیں،وہاں کفار کی طرف سے انہیں تکلیف پہنچا کران کی آزمائش بھی کرتےہیں تاکہ وہ انتہائی اعزاز واکرام کےمستحق ٹھہریں اورتاکہ بعد میں آنے والے ان کی خلفاء اوران کےامتی جب کبھی اللہ کی راہ میں ستائے جائیں توپھر انبیاء اوررسولوں پرآنے والی مصیبتوں اورتکالیف کویاد کرکے اپنی ہمت بڑھائیں اورانہی کی طرح ثابت قدمی کامظاہرہ کریں اوراس میں ایک حکمت بھی ہےکہ کفار کانامہ اعمال اورزیادہ سیاہ ہوجائے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جلداپنی سزا کوپالیں اوردنیا انکےوجودنامسعود سےپاک وصاف ہوجائے۔،،
(8)مصر کےمشہور عالم محمد متولی شعراوی لکھتےہیں کہ رسول اللہﷺ پرخفیف ساجادو کیے جانےمیں ایک حکمت یہ بھی ہےکہ کفار پراتمام حجت کیاجاسکے۔جو جوحربہ وہ آزماسکتےتھے انہیں اللہ نےموقع دیا کہ وہ اسے آزما کردیکھ لیں لیکن اللہ کےرسولﷺ ثابت قدم رہے۔اگر یہ جادو اثرنہ کرتایاانہیں جادو کرنےکاموقع ہی نہ دیا جاتاتو وہ یہ کہہ نےجادو کیا اور آپﷺ پرخفیف سااثر بھی ہوا جو ان کےاصل مشن، یعنی تبلیغ رسالت میں حائل نہیں ہواتو کفار کےپاس کوئی عذر باقی نہ رہا۔ انہوں نےآپﷺ کوقتل کرنے کی سازش کی ،باربار مدینہ پرچڑھائی کی اور بالآخرجادو کرکے بھی دیکھ لیا لیکن رسول اللہﷺ کوختم کرنے کی سازش میں بری طرح ناکام ہوئے۔ آپ بشری حیثیت سےتھوڑے بہت متاثر ہوئے، جیسے جنگ احد میں دندان مبارک کاشہید ہونااور اسی طرح جادو کا خفیف اثر ہونا اورایسے ہی زہرکامعمولی اثرقبول کرنا لیکن اللہ تعالیٰ نےانہیں اپنی حفاظت میں رکھا اورکفار کےعزائم کوناکام بنا دیا۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
فتاویٰ علمائے حدیثجلد 11 |