سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(518) عصبہ کی اقسام

  • 23283
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-18
  • مشاہدات : 3725

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جملہ کتب فقہ میں سلسلہ عصبیت کا قسم چہارم کا عم الجد تک قائم رکھا ہے تو اس سلسلے میں عم الجد میں میت کے سگے دادا کا چچا مراد ہے یا اور کوئی اوپر کا جدامرادہے؟اگر اوپر کا جدامرادہے تو سلسلہ عصیبت عم الجد کی پشت تک اوپر جائے گا؟اگر سلسلہ عم الجد محدودنہیں تو عم حضرت آدم علیہ السلام  کا لازم آتا ہے علاوہ اس کے سلسلہ عصبیت لا یتناہی پایا جائے پایا جائے تو باب ذی الارحام وغیرہ بے سود ہو جاتے ہیں کہ قبائل عرب و نیز ہندوستان وغیرہ میں شجرہ آدم  علیہ السلام  تک موجود ہیں پس کسی وقت میں مسئلہ عصبیت کا زائل نہ ہو گا امید ہے کہ مراتب کا جواب بحوالہ کتاب ارقام فرمائیں گے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جواب سے پہلے امور ذیب کا جان لینا ضرورہے۔

1۔عصبہ نسبیہ کی چار صفیں ہیں (1)جزومیت یعنی ابن میت ابن الابن میت ابن ابن ابن المیت ، علی ہذا القیاس جہاں تک سلسلہ نیچے کو چلا جائے (2)اصل میت یعنی اب میت ۔ اب اب میت۔اب اب اب میت، علی ہذا القیاس جہاں تک سلسلہ اوپر چلا جائے۔(3)جزء اب میت یعنی اخ المیت لاب دام یا لاب فقط ۔ ابن الاخ میت  لابن وام یا لاب فقط۔ ابن ابن اخ المیت لاب وام یا لاب فقط و علی ہذا القیاس جہاں تک سلسلہ نیچے چلا جائے(4)جزو میت یعنی عم لا ب فقط۔

2۔ان اصناف اربعہ میں یہ شرط ہے کہ ہر ایک از قسم ذکورہیں نہ اناث اور یہ کہ بےواسطہ انثی کے میت کی طرف منسوب ہوں جیسا کہ عصبہ بنفصہ کی تعریف:

 "ذكر لا تدخل في نسبته الي الميت انثي"اس پر دال ہے۔

3۔صنف چہارم میں جدسے جد صحیح (یعنی اب الاب یا اب اب الاب یا اب اب الاب) (یعنی جس کی نسبت الی المیت میں انثی نہ داخل ہو)مراد ہے نہ کہ جدفاسد یعنی نانا کیونکہ نانا خود ہی میت کی طرف بواسطہ انثی ، یعنی ام کے منسوب ہے تو جو شخص کہ بواسطہ نانا کے میت کی طرف منسوب ہو وہ بھی بالضروربواسطے انثی کے منسوب ہو گا اور جب وہ شخص بھی بواسطہ انثی کے منسوب ہوا تو عصبہ بنفسہ باقی نہ رہا تو یہ عصبہ بنفسہ کی کسی صنف میں کیونکر معدود ہو سکتا ہے؟

4صنف چہارم میں عم سے عم عینی یا عم علاتی یعنی عم لاب وام یا الاب فقط مراد ہے نہ کہ عم اخیافی یعنی عم لام کیونکہ عم اخیافی بھی میت کی طرف بواسطہ انثی یعنی ام کے منسوب ہے۔

اب جواب سنیے:

عم الجد جو عصبہ بنفسہ کی صنف چہارم کے افراد میں سے ایک فرد ہے اس میں بھی جدصحیح مراد ہے اور وہ بھی عام یعنی خواہ میت کا باپ ہو یا میت کے باپ کا باپ ہو یا میت کے باپ کا باپ کے باپ کا باپ ہو و علی ہذا القیاس ۔ جہاں تک سلسلہ اوپر کو جائے ۔ حضرت آدم  علیہ السلام  بھی ہر شخص کے جس صحیح ہیں باستثنائے حضرت مسیح  علیہ السلام  کے کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں تو ان کے حق میں حضرت آدم  علیہ السلام  صرف جد فاسد ہی ہیں نہ کہ جس صحیح چونکہ عصبہ بنفسہ کی ہر ایک صنف میں اصناف اربعہ سے یہ شرط ہے کہ خود از قبیل ذکر ہوا ور یہ کہ صرف انثی ہی کے واسطہ سے میت کی طرف منسوب نہ ہواور عموماًذوی الارحام میں یہ شرط مفقود ہے یعنی ان کی کسی صنف میں یہ شرط نہیں پائی جاتی کیونکہ ذوی الارحام از قبیل ذکور ہی نہیں ہیں یا ہیں تو انثی ہی کے واسطہ سے میت کی طرف منسوب ہیں لہٰذا یہ دونوں ایک دوسرے کے مباین اور دونوں کے سلسلے الگ الگ جاتے ہیں کوئی کسی سے ملتبس نہیں ہے اور نہ ایک کے اعتبار سے دونوں کے باب کا مسدود ہونا لازم آتا ہے اور نہ ایک کا اعتبار دوسرے کے اعتبار سے مغنی ہے اور چونکہ کسی کتاب میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ ہر جد کے لیے عم کا ہونا ضرورہے لہٰذا یہ شبہ بھی" کہ اگر سلسلہ عم المجد محدود نہیں تو عم حضرت آدم علیہ السلام  کا لازم آتا ہے وارد نہ ہو گا۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الفرائض،صفحہ:756

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ