السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید نے اپنی جائیداد میں سے بوقت حیات ایک مکان بڑے بیٹے کو اور ایک مکان چھوٹے بیٹے کو دیا لیکن یہ ظاہر نہیں کیا کہ یہ مکان برائے سکونت دیا یا ملکیت میں اور دختر کو کہا ہم تم کو دوسرا مکان خرید کر یدں گے۔ بعد چند زمانہ کے زید نے انتقال کیا اور نیز بعد زید زوجہ زید نے بھی انتقال کیا بعد انتقال زید زوجہ دونوں لڑکوں نے بقیہ جائیداد میں سے تقریباً دو سو روپیہ کا زیور و کپڑا و برتن مسی اپنی ہمشیرہ کو دیا بعدہ دونوں لڑکوں میں سے چھوٹے لڑکے نے انتقال کیا اور اس نے اپنی ایک بیوی اور ایک دختر کو چھوڑا ۔ اب بضرورت سرکار گورنمنٹ دونوں مکان سڑک میں آگئے ہیں لہٰذا اس کا روپیہ بموجب شرع شریف کس طرح تقسیم ہو نا چاہیے ورثاء میں سے چار اشخاص ہیں یعنی زید کا ایک لڑکا اور ایک دختر اور دوسرے لڑکے مرحوم کی ایک بیوی اور ایک دختر۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہر دو مکان کا روپیہ بہ تفریق ذیل تقسیم ہو گا زید کا تمام ترکہ بطریق اختصار پانچ سہام پر تقسیم ہو گا دو دو سہام ایک ایک لڑکے کو اور ایک حصہ لڑکی کو۔ ازاں بعد جو لڑکا مر گیا ہے اس کے مال کے آٹھ سہام کے ایک حصہ بیوی کو اور چار دختر کو اور بھائی کو جو زید کا بیٹا ہے دیے جائیں اورایک بہن کو۔ عرف میں جب مکان وغیرہ کسی کو دیا جاتا ہے تو تملیک مراد نہیں ہوتی لہٰذا تمام ترکہ زید مع ہر دو مکان مذکورۃ الصدر ترکہ زید مالک بطریق مذکور ہ تقسیم ہوں گے۔
زید کے موجود ورثا چار شخص ہیں ایک لڑکا اور ایک لڑکی اور ایک پوتی اور ایک بہو پس زید کے متروکہ مال میں سے نصف یعنی آدھا اس کے لڑکے کو ملے گا اور ربع یعنی چوتھا ئی اس کی لڑکی کو اور بقیہ ربع کے پانچ حصے کر کے ان میں سے چار حصے اس کی پوتی کو ملیں گے اور ایک حصہ بہو کو یعنی بیس روپیہ میں سے دس روپیہ زید کے لڑکے کو ملیں گے اور پانچ روپیہ اس کی لڑکی کو اور چار روپیہ اس کی پوتی کو اور ایک روپیہ اس کی بہو کو ملے گا۔ واللہ اعلم بالصواب۔کتبہ: ابو یوسف محمد عبد المنان غازی پوری مدرس مدرسہ ریاض العلوم شہر دھلے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب