السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص بہت اسباب چھوڑ کر مر گئے ان کی ماں بی بی لڑکی بھائی بھتیجا ہیں اس میت پر قریب ہزار روپیہ کے قرض ہے اس کے بقیہ ورثا کو معاش اس قدر ہے کہ ادا کردیں۔مگر بہت دیر میں ادا ہونے کا خیال ہے جس کی وجہ سے اس میت کو تکلیف ہوتی رہے گی کل اسباب بھتیجا کے اختیار میں ہے بھتیجا کو خیال ہوا کہ ان کی نجات و خلاصی جہاں تک جلد ہو سکے قرض ادا کر کے ہو جائے اس لیے اس نے سمجھا کہ اس میت کی چیزیں وافررہتے ہوئے کیوں تکلیف میں مبتلا رہے ؟یہ خیال کر کے اس بھتیجے نے اس کے اسبابوں کو ہر چھوٹی و بڑی (بغیر خیال کیے ہوئے کہ ورثا کے کام کا کوئی اسباب ہے) چیزوں کو بیچنا شروع کیا اور قرض تھوڑا ادا کیا بعد ازاں کچھ دن کے بھتیجے کو خبر ملی کہ بھائی نے اپنے اوپر ذمہ ادائے کاری میت کالے لیا ہے کہ اس میت کے سر سے بار اتر جائے تب اس نے بیچنا موقوف کیا اس فعل سے اس بھتیجا کے لوگ اس سے رنج ہیں۔
1۔تو کیا ایسی حالت میں وہ بھتیجا اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت میں میت کی چیزوں کے ضائع کرنے کے جرم میں عذاب میں گرفتار ہو گا اور پرسش ہوگی؟ آیا اس کو ایسا کرنے سے ثواب ملے گا یا گناہ ہو گا؟
2۔ کیا بوجہ چیزوں کے بیچنے کے وہ خیانت کا مجرم ہو گا؟
3۔کیا اس نے خلاف شرع کیا ہے؟ اگر اس نے صرف باجازت ماں اور بی بی کے بیچا ہے کیا وہ گنہگار ہو گا؟ اگر اس نے بغیر اجازت کسی وارث کے چیزوں کو بیچ ڈالا ہے یا مستحق ثواب؟
4۔جو چیزیں بکی ہیں ان کو بھتیجا بیچنے والا واپس شرعاً خریدرا سے لے سکتا ہے؟اگر کوئی وارث واپس لینے کو کہے۔
کیا وہ گنہگار ہو گا یا باعث رنجش اللہ تعالیٰ کے ہو گا اگر وہ چیزیں واپس خریدارسے لے لے؟
5۔کیا بیچنا چیزوں کا شرعاً بے شرمی ہے؟
6۔کیا رنج ہو نا چچاؤں کا اس پر جا ہے یا بے جا شرعاً؟کیا یہ رنجش باعث رنجش اللہ تعالیٰ کا بھی بیچنے سے ہو گا؟ کیا گنہگار ہو گا بھتیجا اس کے لیے؟
7۔ کیا میت کی چیز کو بیچ کر اس کی طرف سے کار خیر میں دینا افضل ہے؟ خاص کر قرض اس کے ذمہ ہو یا تقسیم ہونا وارثوں میں بہتر ہے؟
8۔ماں مر گئی ہے تو کیا اس کے لڑکے کو اس قدر اختیار و حق شرعاً ھاصل ہے کہ اس کی چیز کو اپنی نانی سے بزورلےکر بیچ کر اپنی ماں کی طرف سے قرض جو باقی رہ گیا ہے ادا کردے اور کار خیر میں لگادے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قانون شرع یہ ہے کہ ترکہ میت سے بعد تجہیز و تکفین کے جو کچھ بچ رہے اگر میت مدیون ہو تو اس میں سے اولاً اس کادین ادا کیا جائے ۔ ادائے دین کے بعد جو کچھ بچ رہے اگر میت نے کچھ وصیت کی ہو تو اس بچے ہوئے کی ایک تہائی میں سے اس کے وصیت میں لگایا جائے اس کے بعد جو کچھ بچ رہے وہ حسب قانون شرع شریف ورثہ میں تقسیم کیا جائے اس میں سے قبل تقسیم کے بلا رضا مندی کل ورثہ کے اور کسی کام میں صرف کرنا جائز نہیں ہے صورت مسئولہ میں جو بھتیجے نے( جس کے اختیار میں کل ترکہ ہے) اگر قبل تقسیم ترکہ میان ورثہ اس ترکہ میں سے بعض چیزیں بیچ کر دین میت ادا کرنا شروع کیا تو اس پر مواخذہاخروی کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کیونکہ اس نے یہ کوئی خلاف شرع کام نہیں کیا بلکہ اگر اس نے نیک نیتی سے یہ کام کیا ہے تو امید ہے کہ اس کو اجر ملے گا ۔ اگر ورثہ میت خود دین کے ادا کرنے کو تیار ہوں اور فروخت شدہ چیزیں واپس کر لینا چاہتے ہوں اور خریداران بخوشی واپس کردیں تو اس میں کچھ گناہ نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب