سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(493) کیا عورت اپنا حصہ معاف کر سکتی ہے ؟

  • 23258
  • تاریخ اشاعت : 2024-10-25
  • مشاہدات : 778

سوال

(493) کیا عورت اپنا حصہ معاف کر سکتی ہے ؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک عورت عاقلہ بالغہ نے اپنے طیب خاطر سے خواہ اپنے بھائیوں کی خوشامدانہ درخواست سے بدون کسی جبرواکراہ اور خدع وفریب کے اپنا وہ حصہ جو اس کو اس کے باپ کی میراث سے ملنا تھا اپنے بھائیوں کو معاف کردیا اور کہا کہ مجھ کو اس حصہ سے کوئی دعوی نہیں ہے میں وہ حصہ نہ لوں گی میرے برادر اور برادرگان اس کو باہم تقسیم کرلیں تو یہ معاملہ شرعاً درست ہے یا نہیں اور بعد فوت اس عورت کے ورثہ اس کی اس جائیداد کا دعوی دائر کر سکتے ہے یا نہیں اور ان کو اس جائیداد کا لینا درست ہے یا نہیں ؟ ابسطواالجواب فلکم الثواب والحکم اللہ ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ معاملہ شرعاً درست ہے اب اس عورت کے ورثہ اس جائیداد کو شرعاً واپس نہیں لے سکتے عورت عاقلہ بالغہ اپنے مال میں ہر طرح کا تصرف کر سکتی ہے۔

((وقال البخاري :وَقَالَتْ أَسْمَاءُ لِلْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ وَابْنِ أَبِي عَتِيقٍ وَرِثْتُ عَنْ أُخْتِي عَائِشَةَ مَالًا بِالْغَابَةِ وَقَدْ أَعْطَانِي بِهِ مُعَاوِيَةُ مِائَةَ أَلْفٍ فَهُوَ لَكُمَا))اه وغير ذلك من الاحاديث ما يدل   علي هذا"[1]

(امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا ہے اسما رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے قاسم بن محمد اور ابن ابی عتیق کو کہا کہ غابہ نامی جگہ سے مجھے میری ہمشیرہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے وراثت ملی ہے جس کے عوض معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے مجھے ایک لاکھ (درہم ) دیے ہیں میں وہ تم دونوں کو دیتی ہوں اس کے علاوہ بھی کئی ایک احادیث ہیں جو اس مضمون پر دلالت کرتی ہیں)

صورت مذکورہ سوال میں اس عورت نے اپنا حق معاف کردیا ہے اور معاف کردینا حقوق کا عین ہو یا دین احادیث صحیحہ معتبر ہ سے ثابت ہے۔

"وقال البخاري: قال عمر رضي الله تعاليٰ عنه اني اشهدكم يا معشر المسلمين علي حكيم اني اعرض عليه حقه من هذا الفئي فيابيٰ ان ياخذه"[2]

(امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا : اے مسلمانوں کی جماعت !میں تم کو حکیم  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  پر گواہ بناتا ہوں کہ میں ان پر اس مال فے میں سے ان کا حق پیش کرتا ہوں تو وہ اسے لینے سے انکار کرتے ہیں)

اس میں تصریح ہے کہ حکیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اپنا حق مال میں چھوڑ دیا اور نہ لیا جو دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کو پہنچایا گیا۔

"روي ابو داود عن ام سلمة قالت:قال رسول الله صلي الله عليه وسلم ((انما انا بشر وانكم تختصمون الي ولعل بعضكم ان يكون الحن بحجته من بعض فاقضي له علي نحو مما اسمع منه فمن قضيت له من حق اخيه شئيا فلاياخذ منه شيا فانما اقطع له قطعة من النار"[3]

(امام ابوداود  رحمۃ اللہ علیہ  نے روایت کیا ہے ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے بیان کیا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں ایک بشر ہوں تم اپنے جھگڑے میرے پاس لاتے ہو اور ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کوئی دوسرے کے مقابلے میں اپنی حجت پیش کرنے میں زیادہ چرب زبان ہواور پھر میں اس سے سننے کے مطابق فیصلہ کردوں تو جس کسی کے لیے میں اس کے بھائی کے حق کا فیصلہ کردو تو وہ اس سے کچھ نہ لے میں تو اس کے لیے آگ کا ٹکڑا کاٹ رہا ہوں)

"وفي اخري له عنها قالت:اتي رسول الله صلي الله عليه وسلم رجلان يختصمان في مواريث لهما لم تكن لهما بينة الا دعواهما فقال النبي صلي الله عليه وسلم فذكر مثله فبكيٰ الرجلان وقال كل واحد منهما:حقي لك‘فقال لهما النبي صلي الله عليه وسلم اما اذا فعلتما ما فعلتما فاقتسما وتوخيا الحق ثم استهما ثم تحالا وفي اخري له عنها قال:يختصمان في مواريث واشياء قد درست"[4]

(امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ  کی ایک دوسری روایت میں ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے ہی بیان کیا ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے پاس دو آدمی آئے جن کا میراث کے معاملے میں جھگڑا تھا اور ان کے پاس سوائے اپنے اپنے دعوے کے اور کوئی گواہ نہ تھا تو نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا : پھر مذکورہ بالا حدیث کے مثل بیان کیا چنانچہ وہ دونوں رونے لگے اور ہر ایک دوسرے سے کہنے لگا میرا حق تیرے لیے ہے پھر نبی مکرم  صلی اللہ علیہ وسلم   نے ان دونوں سے فرمایا جب تو ایسا کرتے ہو تو آپس میں تقسیم کر لو اور حق کا قصد کرو ۔ پھر (حصے کی تعیین کے لیے) آپس میں قرعہ ڈال لو پھر ممکن زیادتی ایک دوسرے سے معاف کرالو ابو داؤد ہی کی ایک دوسری روایت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے مروی ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ان دو آدمیوں کا وراثت میں جھگڑا تھا اور بھی چند دوسری چیزیں تھیں جن کے نشانات مٹ گئے تھے)

ان روایات سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ معاف کر دینا اپنے حقوق کا خاص عین اور مواریث میں بہر کیف جائز ہے جیسا کہ حضرت نے مخاصمین فی المیراث کو فرمایا کہ" ثم تحالا" یعنی ایک دوسرے کو معاف کردو۔


[1] ۔ صحیح البخاري رقم الحدیث(2462)

[2] ۔صحیح البخاري رقم الحدیث(2599)

[3] ۔ سنن ابن داؤد رقم الحدیث (3584)

[4] ۔سنن ابن داؤد رقم الحدیث (3584)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الفرائض،صفحہ:735

محدث فتویٰ

تبصرے