سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(487) چوری کا مال واپس کرنا اور توبہ کرنا ضروری ہے

  • 23252
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 700

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک مسلمان مذہب حنفی بے نمازی عمر سولہ برس عرصہ سے بیمار تھا اور اس کی ماں نے ایک کسی دوسرے مسلمان کا ایک مرغ چرا کر اور مارکر بلا ذبح کئے ہوئے خود بھی کھا یا اور اپنے بیٹے کو بھی کھلایا۔ بعد کھانے گوشت مرغ مذکورایک ہفتہ تک بیٹا اس عورت کا زندہ رہا آج تاریخ (20/شہرجمادی الاول 1213ھ) یوم چہار شنبہ کو قضا کر گیا جس کی نماز جنازہ مصلحت سے مسلمانوں کے نہیں پڑھی گئی یہ سمجھ کر کہ اول تو بے نمازی دوسرے گوشت حرام کھایا خیر بیٹا تو اس عورت کا مر گیا اب اس عورت کے واسطے کیا ہو نا چاہیے؟ تحریر جواب مسئلہ اسلام سے آگاہ فرمائیں ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس عورت نے مرغ چرا کر آپ بھی کھایا اور اپنے بیٹے کو بھی کھلایا اس پر واجب ہے کہ جس شخص کا مرغ چرایا ہے اگر وہ معاف نہ کرے تو مرغ کا اس کو تاوان دے۔

"عن سمرة بن جندب رضي الله تعاليٰ عنه قال:قال رسول الله صلي الله عليه وسلم:(( علي اليد ما اخذت حتي تؤديه))[1](رواہ احمد والا ربعة و صحیحه الحاکم بلوغ المرام )

(سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا :"ہاتھ نے جو کچھ (قرض یا عاریت کے طور) لیا وہ اس کے ذمے رہتا ہے حتی کہ اسے اداکرے)

جو اس عورت نے اس مرغ کو مارکربلا ذبح کھایا اور کھلایا ہے اس گناہ سے نادم ہواور اللہ تعالیٰ سے معاف کرائے اور سچے دل سے توبہ کرے کہ پھر ایسی حرکت نہ کرے۔

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا توبوا إِلَى اللَّهِ تَوبَةً نَصوحًا...﴿٨﴾... سورة التحريم

(اے لوگو جو ایمان لائے ہو!اللہ کی طرف توبہ کرو خالص توبہ)

﴿قُل يـٰعِبادِىَ الَّذينَ أَسرَفوا عَلىٰ أَنفُسِهِم لا تَقنَطوا مِن رَحمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغفِرُ الذُّنوبَ جَميعًا إِنَّهُ هُوَ الغَفورُ الرَّحيمُ ﴿٥٣ ... سورة الزمر

(کہہ دے اے میرے بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی! اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ بے شک اللہ سب کے سب گناہ بخش دیتا ہے بے شک وہی تو بے حد بخشنے والا نہایت رحم والا ہے اور اپنے رب کی طرف پلٹ آؤ اور اس کے مطیع ہو جاؤ )


[1]   مسند أحمد (۵/ ۸) سنن أبي داؤد، رقم الحدیث (۳۵۶۱) سنن الترمذي، رقم الحدیث (۱۲۶۶) سنن النسائي الکبریٰ (۳/ ۴۱۱) سنن ابن ماجه، رقم الحدیث (۲۴۰۰) اس کی سند ضعیف ہے۔ دیکھیں: ضعیف الجامع، رقم الحدیث (۳۷۳۷)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

كتاب الحظر والاباحة،صفحہ:729

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ