سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(479) بیل گاڑی پر سواری کرنا جائز ہے یا نہیں ؟

  • 23244
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 717

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بیل گاڑی پر سواری کرنا جائز ہے یا نہیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بیل گاڑی پر سوار ہونا جائز ہے۔ اگر کوئی یہ سوال کرے کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک شخص کا ذکر فرمایا کہ وہ ایک بقر (بیل) ہانکے لیے جاتا تھا، اتفاقاً تھک کر اس پر سوار ہو لیا،   الله تعالیٰ نے اسے بولنے کی طاقت دی، وہ بولا کہ ہم سواری کے لیے نہیں بنائے گئے ہیں، ہم تو کھیتی کے لیے بنائے گئے ہیں۔ اس کے بولنے پر لوگوں نے تعجب کیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ یہ   الله کی قدرت سے بعید نہیں ہے، میں بھی اس پر ایمان رکھتا ہوں اور ابوبکر و عمر بھی، حالانکہ وہ دونوں صاحب رضی اللہ عنہما  اس جگہ موجود نہ تھے۔

حدیثِ مذکور کے الفاظ یہ ہیں:

عن أبي ھریرة رضی اللہ عنہ  عن رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  قال: (( بینما رجل یسوق بقرة، إذا عیي فرکبھا فقالت: إنا لم نخلق لھذا، إنما خلقنا لحراثة الأرض )) فقال الناس: سبحان  اللّٰه ! بقرة تکلم۔ فقال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : (( فإني أومن به أنا و أبو بکر و عمر )) وما ھما ثم۔[1]الحدیث(متفق علیه، مشکوة شریف، ص: ۴۶۶

[سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’اس اثنا میں کہ ایک آدمی گائے ہانک رہا تھا، جب وہ تھک گیا تو وہ اس پر سوار ہو گیا، اس نے کہا: ہمیں اس لیے نہیں پیدا کیا گیا، ہمیں تو کھیت کاشت کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔‘‘ لوگوں نے کہا: سبحان  اللّٰه ! گائے کلام کرتی ہے۔ رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’میں اس پر ایمان رکھتا ہوں، ابوبکر و عمر ( رضی اللہ عنہما ) بھی اس پر ایمان رکھتے ہیں۔‘‘ اور وہ دونوں اس وقت وہاں موجود نہیں تھے]

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بقر پر سواری کرنا ناجائز ہے اور چونکہ بیل گاڑی میں بھی بیل جوتتی ہیں، اس لیے بیل گاڑی پر بھی سواری کرنا ناجائز ہوگا، تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بیل گاڑی پر سوار ہونا اس حدیث سے ناجائز ثابت نہیں ہوتا، کیونکہ جو شخص بیل گاڑی پر سوار ہوتا ہے، حقیقت میں وہ شخص گاڑی پر سوار رہتا ہے، نہ کہ بیل پر، ہاں بیل اس گاڑی کو کھینچتی ہیں تو اس حدیث سے بیل گاڑی کی سواری کی ناجوازی ثابت نہیں ہوتی۔


[1]                صحیح البخاري، رقم الحدیث (۳۲۸۴) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۳۸۸)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

كتاب الحظر والاباحة،صفحہ:723

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ