سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(467) دوا کی حلت اور قسم کا کفارہ

  • 23232
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 683

سوال

(467) دوا کی حلت اور قسم کا کفارہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص کو مرض طحال ہے۔طحال کے اوپر ایک دوا ضماد کیا،اس کے ضماد کرنے سے اس کو بہت سوزش وجلن پیدا ہوئی،اُس حالت میں نہایت بے قرار ہوا اور اُس وقت اس نے کہا کہ اے  پروردگار!اگر جلن وسوزش ہماری تو رفع کردے تو ہم آج سے کسی قسم کا علاج کھانے یا لگانے کا نہیں کریں گے۔بعد ایک گھنٹہ کے سوزش وجلن اُس شخص کی جاتی رہی،مگر صحت نہیں ہوئی اور طحال موجود ہے۔اس کے والدین واپنے لگانے ومحلےکے لوگ واسطے کھانے دوا کوشاں ہیں،مگروہ شخص بوجہ کرنے وعدہ کے دوا کھانے سے انکار کرتا ہے،اس لیے ملتمس ہے کہ شرع اجازت دوا کھانے یالگانے کی دیتی ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسئولہ میں وہ شخص دوا کھائے اور لگائے اور  جو صورت جائز علاج کی ہو،عمل میں لائے ،شرعاً اُس کو سب جائزہے،لیکن اگر ایسا کرے تو اس کو کفارہ دینا ہوگا اور اس کا کفارہ وہی ہے جو قسم کاکفارہ ہے۔قسم کا کفارہ قرآن مجید پارہ ہفتم رکوع 2 میں مذکور ہے ،وہاں دیکھنا چاہیے۔[1]صحیح مسلم(45/1) میں ہے:

"عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّهُ قَالَ نَذَرَتْ أُخْتِي أَنْ تَمْشِيَ إِلَى بَيْتِ اللَّهِ حَافِيَةً فَأَمَرَتْنِي أَنْ أَسْتَفْتِيَ لَهَا رَسُولَ اللَّهِ فَاسْتَفْتَيْتُهُ فَقَالَ لِتَمْشِ وَلْتَرْكَبْ".[2]

’’عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ میری بہن نے ننگے پاؤں بیت اللہ کی طرف جانے(اور حج کرنے) کی نذر مان لی۔پھر مجھے حکم دیا کہ میں ان کے لیے  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   سے اس مسئلے کو دریافت کروں،سو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم   سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:وہ چلے اور سواری پربیٹھے۔‘‘

"عن عقبة بن عامر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "كفارة النذر كفارة اليمين"[3]

’’عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:نذر کا کفارہ قسم والاہے۔‘‘


[1] ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغوِ فى أَيمـٰنِكُم وَلـٰكِن يُؤاخِذُكُم بِما عَقَّدتُمُ الأَيمـٰنَ فَكَفّـٰرَتُهُ إِطعامُ عَشَرَةِ مَسـٰكينَ مِن أَوسَطِ ما تُطعِمونَ أَهليكُم أَو كِسوَتُهُم أَو تَحريرُ رَقَبَةٍ فَمَن لَم يَجِد فَصِيامُ ثَلـٰثَةِ أَيّامٍ ذ‌ٰلِكَ كَفّـٰرَةُ أَيمـٰنِكُم إِذا حَلَفتُم وَاحفَظوا أَيمـٰنَكُم كَذ‌ٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُم ءايـٰتِهِ لَعَلَّكُم تَشكُرونَ ﴿٨٩﴾... سورة المائدة

’’اللہ تم سے تمہاری قسموں میں لغو پر مواخذہ نہیں کرتا اور لیکن تم سے اس پر مواخذہ کرتا ہے جوتم نے  پختہ ارادے سے قسمیں کھائیں تو اس کاکفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے،درمیانے درجے کا،جو تم اپنے  گھر والوں کو کھلاتے ہو،یا انھیں کپڑے پہنانا،یاایک گردن آزاد کرنا،پھر جو نہ پائے تو تین دن کے روزے رکھنا ہے۔یہ تمہاری قسموں کاکفارہ ہے،جب تم قسم کھا لو اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو اسی طرح اللہ تمہارے لیےاپنی آیات کھول کر بیان کرتا ہے ،تاکہ تم شکر کرو‘‘

[2] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث(1644)

[3] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث(1645)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

كتاب الحظر والاباحة،صفحہ:718

محدث فتویٰ

تبصرے