ہمیں ایک نئی جماعت کی طرف سے جس کا نام: " الْمُسْلِمِیْن "ایک پمفلٹ ملا ہے ، جس کے اوپر نزول عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں چند سوال کیے گئے ہیں۔ ہم یہ آپ کی طرف بھیج رہے ہیں۔ آپ ہمیں ان کے جواب عنایت فرمائیے،تاکہ دلی سکون حاصل ہو۔
1۔عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ نزول نبی و رسول کی حیثیت سے ہوگا یا امتی کی حیثیت سے؟
2۔اگر عیسیٰ علیہ السلام ایک امتی کی حیثیت سے تشریف لائیں گے تو کیا کسی امتی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سارے اہل کتاب اور غیر مسلموں سے کہے کہ مجھ پر ایمان لاؤ؟
3۔قرآنِ حکیم میں جہاں ساری انسانیت اور اہل کتاب کو دعوتِ اسلام دی گئی ہے کیاوہاں یہ بات ان سے کہی گئی ہے کہ تم ایک امتی (عیسیٰ علیہ السلام) پر بھی ایمان لانا؟
4۔ کیا قرآن و حدیث میں یہ لکھا ہوا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا نزول بطور امتی ہوگا؟ % عیسیٰ علیہ السلام کو دوبارہ نزول کے وقت ’’ نبی ‘‘ کی بجائے ’’ امتی ‘‘ ماننے سے ان کی نبوت کا انکار تو لازم نہیں آئے گا؟ (کیونکہ بزبان عیسیٰ علیہ السلام قرآنِ حکیم میں سورۂ مریم آیت نمبر: ۳۰ میں ہے وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا اور اس (اللہ ) نے مجھے نبی بنایا ہے۔‘‘
5۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام نبی اور رسول کی حیثیت سے آئیں گے تو اس وقت آخری نبی عیسیٰ علیہ السلام ہوں گے یا محمدصلی اللہ علیہ وسلم؟ کیا محمد ﷺ کی بعثت کے بعد بھی کس نبی یا رسول کی ضرورت ہے؟
6۔ اگر تمام انبیاء علیہم السلام کے آخر میں آنے والی ہستی عیسیٰ علیہ السلام کو مانا جائے تو محمدﷺ کے اس فرمان کا: «فَإِنِّیْ آخِرُ الْأَنْبِیَاء لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ» ’’میں تمام نبیوں کے آخر پر ہوں اور میرے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں ہوگا۔‘‘ کا کیا معنی و مفہوم ہوگا؟
7۔عیسیٰ علیہ السلام کا آسمانوں پر اٹھایا جانا اور وہاں صدیوں رہنا اور پھر زمین پر نزول فرمانا اللہ کی نعمتوں میں سے ہے یا نہیں؟ ( اگر نعمتوں میں سے ہے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی نعمتیں یاد کرائے گا۔ ان نعمتوں میں عیسیٰ علیہ السلام کا آسمانوں پر اٹھایا جانا، پھر زمین پر نزول فرمانے کا کوئی ذکر نہیں ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ ) کیا (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ اتنی بڑی نعمت کا ذکر کرنا بھول گئے ہیں یا آسمانوں پر اٹھایا جانے کا واقعہ ہی رونما نہیں ہوا ہے؟
بلکہ حقیقت یہ ہے کہ: محمدﷺخاتم النبیین ہیں، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے ذریعے تمام انبیاء علیہم السلام کے سلسلے کو ختم اور بند کردیا ہے۔ اب عیسیٰ علیہ السلام کا نزول بطور امتی یا نبی نہیں ہوگا۔ آپa سے پہلے تمام انبیاء علیہم السلام وفات پاچکے ہیں، جن میں عیسیٰ علیہ السلام بھی شامل ہیں۔ نزول مسیح علیہ السلام کا عقیدہ ہر لحاظ سے عیسائیوں کا عقیدہ ہے جو منظم سازش سے مسلمانوں میں پھیلایا گیا ہے۔
____________________________________________________________
1۔ مسیح عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نزول نبی، رسول اور محمد رسول اللہ a کے امتی کی حیثیت سے ہوگا۔ قرآنِ مجید میں ہے:
’’ مسیح عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) تو صرف اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور اس کے حکم ہیں، جسے مریم (علیہا السلام) کی طرف ڈال دیا اور اس کے پاس کی روح ہیں، اس لیے تم اللہ کو اور اس کے سب رسولوں کو مانو اور نہ کہو کہ اللہ تین ہیں، اس سے باز آجاؤ کہ تمہارے لیے بہتری ہے۔‘‘
نیز قرآنِ مجید میں ہے:
’’مسیح ابن مریم سوائے پیغمبر ہونے کے اور کچھ بھی نہیں ان سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر ہوچکے ہیں، اس کی والدہ ایک راست باز عورت تھیں، دونوں ماں بیٹے کھانا کھایا کرتے تھے۔‘‘
نیز قرآنِ مجید میں ہے:
’’ آپ نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی اور مجھے اپنا پیغمبر بنایا ہے۔ ‘‘
اور قرآنِ مجید میں ہے:
’’ جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمہیں کتاب و حکمت دوں، پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے جو تمہارے پاس کی چیز کو سچ بتائے تو تمہارے لیے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے۔ فرمایا کہ تم اس کے اقراری ہو اور اس پر میرا ذمہ لے رہے ہو، سب نے کہا ہمیں اقرار ہے۔ فرمایا تو اب گواہ رہو اور خود میں بھی تمہارے ساتھ گوا ہوں میں ہوں پس اس کے بعد بھی جو پلٹ جائے وہ یقینا پورے نافرمان ہیں۔‘‘
2۔ پہلے سوال کے جواب میں گزر چکا ہے کہ مسیح عیسیٰ علیہ السلام کا نزول نبی، رسول اور محمد رسول اللہﷺے امتی کی حیثیت سے ہوگا، لہٰذا یہ سوال ’’ کیا امتی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سارے اہل کتاب اور غیر مسلموں سے کہے کہ مجھ پر ایمان لاؤ؟ ‘‘ بنتا ہی نہیں، کیونکہ مسیح عیسیٰ علیہ السلام امتی ہونے کے ساتھ ساتھ رسول و نبی بھی ہیں۔ بطور مثال ہارون علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام کے امتی بھی ہیں اور رسول و پیغمبر بھی۔ لوط علیہ السلام ، ابراہیم علیہ السلام کے امتی بھی ہیں اور رسول و پیغمبر بھی۔ تو مسیح علیہ السلام، محمد رسول اللہ a کے امتی بھی ہیں اور رسول و پیغمبر بھی۔ تو ان کا لوگوں کو اپنے آپ پر ایمان لانے کی دعوت دینا ،رسول و پیغمبر کی حیثیت سے ہے۔
3۔اس سوال کا جواب نمبر: (۱) اور نمبر: (۲) میں بیان ہوچکا ہے۔
4۔اس کا جواب نمبر: (۱) میں گزر چکا ہے۔
5۔مسیح عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت ان کو امتی ماننے سے ان کے رسول و نبی ہونے کا انکار لازم نہیں آتا، جیسا کہ ان کو رسول و نبی ماننے سے ان کے امتی ہونے کا انکار لازم نہیں آتا۔ دیکھئے لوط علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام کے امتی ہیں۔ قرآنِ مجید میں ہے: ﴿فَآمَنْ لَهُ لُوْطٌ ﴾ [العنکبوت:۲۶] ’’ پس ابراہیم علیہ السلام پر لوط علیہ السلام ایمان لائے۔‘‘ تو اب اس سے لوط علیہ السلام کے رسول و نبی ہونے کا انکار لازم نہیں آتا، تو مسیح علیہ السلام بوقت نزول امتی ہونے کے ساتھ ساتھ رسول و نبی بھی ہیں، بلکہ فی الحال بھی وہ رسول و نبی اور امتی ہیں۔
سائل نے پہلے سوال میں ’’ دوبارہ نزول ‘‘ لکھا ہے، اب کے پانچویں سوال میں بھی ’’ دوبارہ نزول ‘‘ لکھا ہے، حالانکہ یہ بالکل غلط ہے ، کیونکہ مسیح علیہ السلام کا آسمان سے نزول صرف ایک بارہ ہے دوبارہ نہیں۔
6- مسیح علیہ السلام کو رسالت و نبوت محمد رسول اللہﷺ سے تقریباً پانچ چھ سو سال پہلے ملی ہے۔قرآنِ مجید میں ہے:
’’ سب کہنے لگے کہ لو بھلا ہم گود کے بچے سے باتیں کیسے کریں؟ بچہ بول اٹھا کہ میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں۔‘‘ ] الایۃ۔
نیز قرآنِ مجید میں ہے:
’’ اور جب کہا مریم کے بیٹے عیسیٰ نے اے بنی اسرائیل! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔ مجھ سے پہلے کی کتاب تورات کی میں تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی میں تمہیں خوشخبری سنانے والا ہوں ، جن کا نام احمد ہے۔ ‘‘الآیۃ۔
تو مسیح علیہ السلام نزول فرمائیں گے تو اس وقت بھی آخری نبی محمد رسول اللہ a ہی ہوں گے، کیونکہ مسیح علیہ السلام فرمارہے ہیں:
تو نبی کریمﷺکے بعد نئے سرے سے کسی نبی و رسول کی بعثت کی تو کوئی ضرورت نہیں۔ ہاں! نبی کریمﷺ کے بعد پہلے نبی و رسول مسیح علیہ السلام کو آپ ﷺ کی تائید و تصدیق کے لیے اور فساد و فتنہ کی سرکوبی کی خاطر نازل کرنے کی ضرورت ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں رسول اللہ ﷺ کافرمان ہے:
« لَیُوشِکَنَّ اَنْ یَنْزِلَ فِیْکُمُ ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا عَدْلاً»(الحدیث)( صحیح البخاری ؍ کتاب احادیث الانبیاء ؍ باب نزول عیسٰی ابن مریم علیہماالسلام)
[ ’’ عنقریب اتریں گے تم میں ابن مریم حاکم منصف۔‘‘ ]
7۔اس کا جواب نمبر: (۶) میں گزر چکا ہے۔ دیکھئے: «إِنَّه لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ۔ » (بخاری ؍ کتاب الانبیاء ؍ باب ما ذکر عن بنی اسرائیل ، مسلم ؍ کتاب الامارۃ ؍ باب الامر بالوفاء ببیعۃ الخلفاء) ’’ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔‘‘
نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے اور «لَیُوشِکَنَّ اَنْ یَنْزِلَ فِیْکُمُ ابْنُ مَرْیَمَ» بھی نبی کریم |ﷺ کا ہی فرمان ہے دونوں میں کوئی منافاۃ نہیں، کیونکہ مسیح علیہ السلام نے فرمایا ہے:﴿وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ﴾ تو : «إِنَّه لاَ نَبِیَّ بَعْدِی» کا معنی و مفہوم مسیح علیہ السلام نے ﴿وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ﴾ فرماکر بیان کردیا ہے ان کے اس بیان کے بعد کسی مزید تشریح کی ضرورت نہیں۔
8۔ نعمتوں میں سے ہے۔( معلوم ہے مسیح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بغیر باپ پیدا فرمانا ، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے ہے۔ تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مسیح عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی نعمتیں یاد کرائے گا، ان نعمتوں میں مسیح علیہ السلام کے بغیر باپ پیدا کیے جانے کا کوئی ذکر نہیں ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ سائل اس کی جو وجہ بیان کرے گا ، وہی یا اس سے ملتی جلتی وجہ مسیح علیہ السلام کے رفع إلی السماء اور نزول من السماء کی آپ بیان کرسکتے ہیں۔ پھر رفع و نزول کے اس خاص مقام پر ذکر نہ ہونے سے ان کی نفی نہیں نکلتی ،جیسا کہ اس خاص مقام پر ولادتِ مسیح علیہ السلام بغیر باپ کا بھی ذکر نہیں تو اس سے اس کی نفی تو نہیں نکلتی۔ پھر اس آیت کریمہ
’’ اے عیسیٰ ابن مریم! میرا انعام یاد کرو ، جو تم پر اور تمہاری والدہ پر ہوا ہے۔‘‘ میں مریم علیہا السلام پر نعمتوں کا ذکر بھی ہے، مگر آگے جو نعمتیں بیان ہوئیں ان میں زکریا علیہ السلام کے ان کے کفیل بننے اور رزق ملنے والی نعمتوں نیز اصطفاء علی العالمین والی نعمت کا کوئی ذکر نہیں اس کی کیا وجہ؟ کیا یہ نعمتیں نہیں تھیں۔ نیز اسی آیت کریمہ میں ہے: ﴿تُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهدِ وَکَهلًا﴾ مہد میں کلام کرنے کا تو قرآنِ مجید میں ذکر ہے ، جیسا کہ آیت:﴿ قَالَ إِنِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ ﴾ الخ ،میں گزر چکا ہے اور سن کہولت میں مسیح علیہ السلام کا انسانوں کے ساتھ کلام کرنا آج تک ثابت نہیں ہوسکا تو لا محالہ نزول کے بعد سنِ کہولت میں وہ انسانوں کے ساتھ کلام کریں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کلام و خبر دینا: ﴿تُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهدِ وَکَهلًا﴾ صدق و حق ہے۔ قرآنِ مجید میں ہے:
اور ایک مقام پر ہے:
ورنہ لازم آئے گا کہ اللہ تعالیٰ کا کلام و خبر دینا واقع کے مطابق نہ ہو اور یہ لازم محال و باطل ہے۔ ) اس سوال کے انداز کو لیا جائے تو کہا جاسکتا ہے ، اللہ تعالیٰ مسیح علیہ السلام کو ان پر اور ان کی والدہ پر اپنی نعمتیں قیامت کے دن یاد کرائے گا ان نعمتوں میں مسیح علیہ السلام کے بغیر باپ پیدا کیے جانے، ان کی والدہ کے اصطفاء علی العالمین، انہیں رزق ملنے اور زکریا علیہ السلام کے ان کے کفیل بنائے جانے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ اتنی بڑی نعمتوں کا ذکر کرنا بھول گئے ہیں یا یہ نعمتیں واقع ہی میں رونما نہیں ہوئیں؟ تو سائل جو جواب دے وہی یا اس سے ملتا جلتا جواب رفع و نزول کا آپ دے لیں۔ تو بھول والی بات کوئی نہیں۔ قرآنِ مجید میں ہے:﴿لَا یَضِلُّ رَبِّیْ وَلَا یَنْسٰی﴾ ( طہ:۵۲)
اور ایک مقام پر ہے:﴿وَمَا کَانَ رَبُّك نَسِیًّا﴾ بلکہ نعمتی در آیت:﴿اُذْکُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْك﴾ [مریم)الخ، میں مسیح علیہ السلام اور ان کی والدہ پر تمام نعمتیں ذکر ہوگئی ہیں، خواہ اس مقام پر بعد میں ان کا ذکر آیا ہے ، خواہ ذکر نہیں آیا۔ تو مسیح علیہ السلام کا رفع إلی اللہ تعالیٰ اور نزول دونوں ثابت ہیں۔ قرانِ مجید میں ہے:
’’ بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف اٹھالیا ہے۔‘‘
نیز قرآنِ مجید میں ہے: (وَرَافِعُك إِلَیَّ﴾ (آل عمران)
’’ اور تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔‘‘
صحیح مسلم میں ہے:
حَدَّثَنَا قُتَیْبة بْنُ سَعِیْدٍ قَالَ: نَالَیْثٌ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ أَبِیْ سَعِیْدٍ عَنْ عَطَاء بْنِ مِیْنَاء عَنْ أَبِیْ هھرَیْرَة قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِﷺ: وَاللّٰہِ لَیَنْزِلَنَّ ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا عَادِلاً(الحدیث)
’’ اللہ کی قسم! ابن مریم ضرور ضرور اتریں گے حاکم عادل۔‘‘ نیز صحیح مسلم میں ہے:
حَدَّثَنَا الْوَلِیْدُ بْنُ شُجَاعٍ وَهارُوْنُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ، وَحَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ قَالُوْا: نَا حَجَّاجٌ وَهوَ ابْنُ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِیْ أبُو الزُّبَیْرِ أَنَّه سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ یَقُولُ: سَمِعتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: لاَ تَزَالُ طَائِفَة مِنْ أُمَّتِي یُقَاتِلُوْنَ عَلى الْحَقِّ ظَاھِرِیْنَ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَة قَالَ: فَیَنْزِلُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ ، فَیَقُوْلُ أَمِیْرُهمْ
(الحدیث) ( صحیح مسلم ؍ کتاب الایمان ؍ باب نزول عیسیٰ ابن مریم حاکماً بشریعۃ نبینا محمد ﷺ)
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ ہمیشہ رہے گی، ایک جماعت میری امت سے حق پر قتال کرتے رہیں گے غالب قیامت کے دن تک۔‘‘ آپﷺ نے فرمایا: ’’عیسیٰ ابن مریم نازل ہوں گے تو ان کے امیر کہیں گے، آؤ ہمیں نماز پڑھاؤ تو عیسیٰ ابن مریم فرمائیں گے، نہیں بے شک بعض تمہارا بعض پر امیر ہے۔ اس امت کو اللہ تعالیٰ کے مکرم کرنے کی وجہ سے۔‘‘
تو حقیقت یہ ہے کہ محمد رسول اللہﷺ خاتم النبیین ہیں۔ آخر الأنبیاء ہیں ، جس کا واضح مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ پر تمام انبیاء علیہم السلام کے سلسلے کو ختم اور بند کردیا ہے۔ آپﷺ کے بعد اللہ تعالیٰ کسی کو نبوت و رسالت عطا نہیں فرمائے گا۔ باقی رہے مسیح علیہ السلام تو ان کو اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت محمد رسول اللہ ﷺ سے پہلے عطا فرمائی ہے، آپ کے بعدمسیح علیہ السلام کے نزول کے وقت ان کو اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت عطا نہیں فرمائی۔ خود مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں:
تو مسیح عیسیٰ علیہ السلام کا نزول پہلے نبی و رسول اور حالاً امتی کی حیثیت سے ہوگا۔ محمد رسول اللہ ﷺ سمیت تمام انبیاء علیہم السلام وفات پاچکے ہیں، جن میں مسیح عیسیٰ علیہ السلام شامل نہیں، کیونکہ وہ اللہ کی طرف اٹھالیے گئے ہیں اور نزول فرمائیں گے۔ چند منٹ کے لیے بالفرض تسلیم کرلیا جائے کہ مسیح علیہ السلام بھی نبی کریمﷺ سے پہلے وفات پاگئے تھے ، پھر بھی وہ نزول ضرور فرمائیں گے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھاکر ان کے نزول کو بیان فرمایا ہے۔ دیکھئے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے ستر ساتھیوں پر موت طاری کردی، پھر ان کو زندہ کرکے دنیا میں واپس لوٹادیا، اسی طرح ایک بستی پر گزرنے والے پرسو برس موت وارد کردی ، پھر زندہ فرماکر دنیا میں لوٹادیا۔ نیز موت کے ڈر سے ہزاروں کی تعداد میں بستی چھوڑنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے موت دے دی، پھر انہیں زندہ فرمادیا۔ تو مسیح بالفرض اگر فوت شدہ ہی تسلیم کرلیے جائیں ، قرب قیامت اللہ تعالیٰ انہیں ضرور نازل فرمائیں گے۔
﴿إِنَّ اللّٰہَ عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ﴾ (البقرة)«وَالله لَینْزِلَنَّ ابْنُ مَرْیَمَ» تو نزول مسیح علیہ السلام کا عقیدہ ہر لحاظ سے اہل اسلام کاعقیدہ ہے رسول اللہ ﷺ نے اس کو حلفاً بیان فرمایا ہے۔ باقی کچھ عیسائی بھی نزول کے قائل ہیں تو درست ہے ، کیونکہ عقیدہ حق ہے، سب عیسائیوں کو یہ عقیدہ اپنانا چاہیے اس کی مثال یوں سمجھیں کہ کچھ عیسائی عقیدہ رکھتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہیں۔ وہ اللہ یا الٰہ یا اللہ کے بیٹے نہیں تو ان کا یہ عقیدہ درست ہے تمام عیسائیوں کو یہ عقیدہ اپنانا چاہیے۔ اب اس کا مطلب یہ تو نہیں نکلتا ، چونکہ کچھ عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے ، لہٰذا اہل اسلام کو یہ عقیدہ نہیں اپنانا چاہیے ، کیونکہ عیسائی یہ عقیدہ رکھتے ہیں۔ دیکھئے عیسائی بلکہ یہودی بھی موسیٰ علیہ السلام ، اسحاق علیہ السلام اور ابراہیم علیہ السلام کو اللہ کے نبی و رسول مانتے ہیں، ان کی رسالت و نبوت کا عقیدہ رکھتے ہیں تو اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں ان انبیاء علیہم السلام کی نبوت و رسالت کا عقیدہ نہیں رکھتا، کیونکہ یہودی عیسائی ان کی نبوت و رسالت کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ بالکل اسی طرح کسی مسلم کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کہے میں نزولِ مسیح علیہ السلام کا عقیدہ نہیں رکھتا ، کیونکہ عیسائی نزول مسیح کا عقیدہ رکھتے ہیں۔
رہی یہ بات کہ: ’’ منظم سازش سے مسلمانوں میں عیسائیوں کا یہ عقیدہ پھیلایا گیا ہے۔‘‘ تو وہ بالکل ہی بے بنیاد ہے، جس طرح یہ بات بے بنیاد ہے کہ مسیح علیہ السلام کی رسالت و نبوت کے عقیدہ اور ان کے کلمۃ اللہ ہونے کے عقیدہ کے متعلق کہنا کہ یہ ہر لحاظ سے عیسائیوں کا عقیدہ ہے جو منظم سازش سے مسلمانوں میں پھیلایا گیا ہے۔
تو اصول یہ ہے عیسائی یایہودی یا کوئی اور قوم ایک عقیدہ رکھتی ہے اور وہ عقیدہ کتاب و سنت کے موافق ہے ، کتاب و سنت میں اس عقیدہ کی تائید و تصدیق اور تاکید موجود ہے تو وہ عقیدہ اپنائیں گے ، اس پر یقین رکھیں گے تو نزولِ مسیح علیہ السلام والے عقیدہ کی کتاب و سنت نے تائید و تصدیق اور تاکید کی ہے اس لیے ہم اس کو اپنائیں گے یہ نہیں کہیں گے: ’’ نزولِ مسیح علیہ السلام کا عقیدہ ہر لحاظ سے عیسائیوں کا عقیدہ ہے۔ جو منظم… الخ ‘‘
دیکھئے سائل لکھتا ہے: ’’ تمام انبیاء علیہم السلام وفات پاچکے ہیں جن میں عیسیٰ علیہ السلام بھی شامل ہیں۔‘‘ اب کوئی کہے کہ: ’’ وفات مسیح علیہ السلام کا عقیدہ ہر لحاظ سے عیسائیوں کا عقیدہ ہے، جو منظم سازش سے مسلمانوں میں پھیلایا گیا ہے۔‘‘ تو سائل کا کیا جواب ہوگا؟
پھر سائل لکھتا ہے: ’’ آپ ﷺ سے پہلے تمام انبیاء علیہم السلام وفات پاچکے ہیں۔ الخ ‘‘ تو سائل کے نزدیک آپ ﷺ نے وفات نہیں پائی ، حالانکہ قرآنِ مجید میں صریح آیت کریمہ ہے: ﴿إِنَّك مَیِّتٌ وَّاِنَّھُمْ مَّیِّتُوْنَ﴾ واللہ اعلم۔
حیاتِ مسیح اور نزولِ مسیح علیہ السلام کے متعلق تفصیل درکار ہو تو ہمارے شیخ کے شیخ حافظ محمد ابراہیم صاحب میر سیالکوٹی … رحمہما اللہ تعالیٰ… کی مایۂ ناز کتاب عظیم ’’ شہادۃ القرآن ‘‘ کا مطالعہ فرمالیں۔