سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(463) کسی مسلمان کی بدخواہی کرنا حرام ہے

  • 23228
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 841

سوال

(463) کسی مسلمان کی بدخواہی کرنا حرام ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید اپنی دختر بالغہ کی نسبت شادی نکاح بکر کے فرزند سے بغرض ادائے فرض وتبیعت سنت رسول مقبول  صلی اللہ علیہ وسلم   مقرر کرتاتھا اور زید کی یہ نیت خالص تھی کہ ایام قلیل میں حسب شرع شریف اس بار عظیم سے سبک دوش ہوکر ماجور اتباع سنت ہو،لیکن عمرو جو باعتبار افعال دنیاوی ایک ثقہ آدمی شمار کیا جاتا ہے،بجوش نفسانیت وبزعم اس کے کہ شادی میری دختر کی بکر کے دوسرے فرزند سے ہوئی ہے،بلا کوئی عذر حسب ونسب وحجت جو مانع شادی مومنین ہو،ایسا مخل ہوا کہ بکر کو استقرارشادی میں کمال تامل ہوا،حتی کہ مشکوک خاطر ہوکر تارک نسبت وختر زید ہوگیا۔مزیدبرآں کہ عمرو تو بذات خاص ہر طرح سے کوشاں ہی تھا،اپنے اعزہ واقربا کو بکوشش بلیغ وچاپلوسی کثیر جیسے کہ فی زماننا مروج ہے،بغرض چھوٹ جانے نسبت د ختر زید کے آمادہ کیا،حالانکہ زید وبکر کا حسب ونسب یکساں ہے،بلکہ حسب ونسب بکر کا باعتبار حسب ونسب زید کے قابل کلام وحرف ہے۔عمرو کامنشائے دلی بوجہ عناد وبغض اسباب زمینداری کے ہر پہلو سے یہی تھا کہ ہرگز ہرگز زید کی دختر بالغہ کا نکاح بکر کے فرزند سے نہ ہو اور بہ نسبت عجلت شادی دختر بالغہ کی ہر مومن کو جیسی تاکیدا کید شرعی ہے،اظہر من الشمس ہے،خلاف اس کے عمرو قاطع ومانع ہوا تو ایسی صورت میں عمرو کی حیثیت باعتبار فعل متذکرہ بالا کے مطابق قول خدا ورسول کیا قرار پائی اور مورد الزام شرعی ہوا یا  نہیں؟اگر ہوا تو کس الزام کا ملزم وکس جرم کا مجرم؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عمرو بوجہ اس فعل کے بدخواہ اپنے بھائی مسلمان کا ہوا اور جو شخص بدخواہی بھائی مسلمان کی کرے،اس کی نسبت امام مسلم وترمذی وابن ماجہ وغیرھم ائمہ حدیث نے ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  عبداللہ بن عمرو وعبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  وعبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  وانس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ  وابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  وبراء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ودیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے روایت کیا ہے کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

"من غشنا فليس منا"[1]

’’جس نے ہمیں دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘

طبرانی کا لفظ  بروایت قیس بن ابی غرزہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  یہ ہے:

فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ غَشَّ الْمُسْلِمِينَ فَلَيْسَ مِنْهُمْ " [2].(کذا فی الترغیب والترھیب للامام الحافظ عبدالعظیم المنذری)

’’جس نے مسلمانوں کو دھوکادیا تو وہ ان میں سے نہیں۔‘‘

"مجمع البحار "میں ہے:"الغش ضد النصح اي ليس من اخلاقنا ولاعلي سنتنا"[3]

’’دھوکا خیرخواہی کی ضد ہے،یعنی دھوکا دینے والا ہمارے اخلاق پر کاربند اور ہماری سنت پر گامزن نہیں ہے‘‘

نیز"مجمع البحار"میں ہے:وهي(اي النصيحة) كلمة يعبر بها عن جملة هي ارادة الخير للمنصوح له"[4]

’’وہ ایسا کلمہ ہے جس کے ساتھ ایک جملے کو تعبیر کیاجاتاہے اور وہ یہ ہے کہ منصوح لہ کے لیے خیر بھلائی کاارادہ کرنا‘‘

ترجمہ حدیث  یہ ہے؛

’’جو شخص ہم مسلمانوں کی بدخواہی کرے ،وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘

مجمع البحار میں ہے:یعنی وہ ہمارے اخلاق والوں میں سے نہیں ہے اور نہ وہ ہماری سنت وطریقہ پر ہے۔


[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۰۱)

[2] المعجم الکبیر (۱۸/ ۳۵۹) مسند أبي یعلیٰ (۲/ ۲۳۳) اس کی سند میں حکم بن عتیبہ اور قیس بن ابی غرزہ کے درمیان انقطاع ہے اور ایک راوی ’’معاویۃ بن میسرۃ بن شریح‘‘ کی توثیق نہیں ملی۔ دیکھیں: الجرح والتعدیل (۸/ ۳۸۶)

[3] مجمع بحار الأنوار (۳/ ۲۵)

[4]   مجمع بحار الأنوار (۳/ ۳۶۱)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الادب،صفحہ:712

محدث فتویٰ

تبصرے