سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(461) کیا مرتکب کبیرہ قابل مغفرت ہے؟

  • 23226
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 759

سوال

(461) کیا مرتکب کبیرہ قابل مغفرت ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مندرجہ زیل افراد کے بارے میں کیا حکم ہے؟آیا ایسا شخص کبھی بخشا جائےگا یا نہیں:

1۔نشہ پینے والا۔2۔ہمسایہ کا حق ادا نہ کرنے والا۔3۔ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا۔4۔جماعت میں پھوٹ ڈالنے والا اور اس سے علیحدہ رہنے والا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شرک وکفر کے علاوہ اور کسی گناہ کی نسبت یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ ضرور بخشا ہی جائے گا اور نہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہرگز بخشا نہیں جائے گا،بلکہ کفر وشرک کے سوا ہر ایک گناہ اللہ تعالیٰ کی مشیت میں ہے۔چاہے تو بخش دے اور چاہے تو سزا دے،لیکن شرک وکفر کے سوا اور کسی گناہ کی سزاابدی نہیں ہے۔مگر آدمی کو ہر ایک گناہ سے ہر آن ڈرتے رہنا چاہیے اور گناہ ہوجائے تو اس سے جلد توبہ واستغفار کر ڈالنا چاہیے اور کسی گناہ پر ہٹ نہیں کرنا چاہیے،ورنہ چھوٹا گناہ بڑے گناہ کی طرف اور بڑا گناہ شرک وکفر کی طرف کھینچ لے جاتا ہے اور ابدی سزا کا مستحق بنا دیتاہے۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے:

﴿إِنَّ اللَّهَ لا يَغفِرُ أَن يُشرَكَ بِهِ وَيَغفِرُ ما دونَ ذ‌ٰلِكَ لِمَن يَشاءُ ...﴿٤٨﴾... سورة النساء

’’بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور وہ بخش دے گا جو اس کے علاوہ ہے جسے چاہے گا۔‘‘

نیز فرماتا ہے:

﴿ذ‌ٰلِكَ بِأَنَّهُم كانوا يَكفُرونَ بِـٔايـٰتِ اللَّهِ وَيَقتُلونَ النَّبِيّـۧنَ بِغَيرِ الحَقِّ ذ‌ٰلِكَ بِما عَصَوا وَكانوا يَعتَدونَ ﴿٦١﴾... سورة البقرة

’’یہ اس لیے کہ وہ اللہ کی آیات کے ساتھ کفرکرتے اور نبیوں کو حق کے بغیر قتل کرتے تھے،یہ اس لیے کہ انھوں نے نافرمانی کی اوروہ حد سے گزرتے تھے۔‘‘

نیز فرماتا ہے:۔

﴿وَلَم يُصِرّوا عَلىٰ ما فَعَلوا ...﴿١٣٥﴾... سورة آل عمران

’’اور انھوں نے جو کیا اس پر ا صرار نہیں کرتے۔‘‘

تفسیر ابن کثیر(182/10) میں ہے:

"وقد روى ابن جرير والترمذي والنسائي وابن ماجه من طرق عن محمد بن عجلان عن القعقاع بن حكيم عن أبي صالح عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال إن العبد إذا أذنب ذنبا كانت نكتة سوداء في قلبه فإن تاب منها صقل قلبه وإن زاد زادت فذلك قول الله: (كَلَّا ۖ بَلْ ۜ رَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ)
وقال الترمذي حسن صحيح ولفظ النسائي إن العبد إذا أخطأ خطيئة نكت في قلبه نكتة فإن هو نزع واستغفر وتاب صقل قلبه فإن عاد زيد فيها حتى تعلو قلبه فهو الران الذي قال الله  (كَلَّا ۖ بَلْ ۜ رَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ)

وقال أحمد : حدثنا صفوان بن عيسى أخبرنا ابن عجلان عن القعقاع بن حكيم عن أبي صالح عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن المؤمن إذا أذنب كانت نكتة سوداء في قلبه فإن تاب ونزع واستغفر صقل قلبه فإن زاد زادت حتى تعلو قلبه وذاك الران الذي ذكر الله في القرآن (كَلَّا ۖ بَلْ ۜ رَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ)

وقال الحسن البصري : هو الذنب على الذنب حتى يعمى القلب فيموت وكذا قال مجاهد بن جبر وقتادة وابن زيد وغيرهم (المطففین:14)[1]

ابن جریر  رحمۃ اللہ علیہ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ ۔نسائی  رحمۃ اللہ علیہ  اور ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ  نے کئی واسطوں کے ساتھ محمد بن عجلان سے روایت کی ہے ،وہ قعقاع بن حکیم سے روایت کرتے ہیں،وہ ابو صالح سے، وہ ابوہریرۃ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو ا س کے دل پر ایک سیاہ نکتہ لگ جاتا ہے،اگر وہ اس گناہ سے توبہ کرلے تو اس کا دل صاف کردیا جاتا ہے اور اگر وہ گناہ میں بڑھتا چلاجائے تو وہ نکتے بھی بڑھتے چلے جاتے ہیں۔‘‘

یہی وہ زنگ ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے:

﴿كَلّا بَل رانَ عَلىٰ قُلوبِهِم ما كانوا يَكسِبونَ ﴿١٤﴾... سورة المطففين

’’ہرگز نہیں بلکہ زنگ بن کر چھا گیا ہے ان کےدلوں پر،جو وہ کماتے تھے۔‘‘

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  نے اس حدیث کو حسن صحیح قرار دیاہے۔۔۔۔حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا ہے:اس کامطلب گناہ پر گناہ کرتے چلے جانا یہاں تک کہ دل اندھا ہوجائے اور وہ مرجائے۔مجاہد رحمۃ اللہ علیہ ،ابن جبیر رحمۃ اللہ علیہ ، قتادہ رحمۃ اللہ علیہ ،اور ابن زید رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ کا یہی موقف ہے۔


[1] ۔سنن الترمذي رقم الحدیث(3334) سنن النسائي الکبریٰ(509/6) سنن ابن ماجه رقم الحدیث(4244)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الادب،صفحہ:710

محدث فتویٰ

تبصرے