السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
شرع شریف میں سلام علیک کس طرح سے کرنا جائز ہے؟ قول حق اور فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برخلاف کسی بزرگ یا ولی کا اتباع کرنا اور ان سے استدلال کرنا کن مسائل میں کیا حکم ہے جائز ہے یا نہیں؟
السلام علیکم کہتے وقت کمر کو جھکانا اور ہاتھ کو سینے یا پیشانی تک اٹھانا اور ان میں سے کسی کو لازم و ملزوم ٹھہرانا عجز و تعظیم کے اظہار میں آداب و بندگی کو ترجیح دینا اور سلام علیک کو معیوب اور اسلام کرنے والے کو متکبر خیال کرنا جائز ہے یا نہیں؟)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اتباع کسے بخلاف قول و فعل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر گز جائز نیست چہ اوتعالیٰ ہمہ کس راکہ اوتعالیٰ را دوست دارد مامور باتباع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمودہ است درسورہ آل عمران (رکوع4) مذکورست۔
﴿ قُل إِن كُنتُم تُحِبّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعونى يُحبِبكُمُ اللَّهُ وَيَغفِر لَكُم ذُنوبَكُم...﴿٣١﴾... سورة آل عمران
وارسال رسل۔علي نبينا وعليهم الصلاة والسلامبرائے ہمیں اتباع و اطاعت است اوتعالیٰ در سورہ نساء (رکوع9)فرمودہ
﴿وَما أَرسَلنا مِن رَسولٍ إِلّا لِيُطاعَ بِإِذنِ اللَّهِ...﴿٦٤﴾... سورة النساء
واطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عین اطاعت خداست جل وعلا چنانچہ در سورنساء (رکوع 11) مے فرماید۔
﴿مَن يُطِعِ الرَّسولَ فَقَد أَطاعَ اللَّهَ...﴿٨٠﴾... سورة النساء
پس مخالفت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عین مخالفت خدائے عزوجل باشد و اتباع کسے بخلاف قول و فعل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مخالفت رسول است صلی اللہ علیہ وسلم پس جائزنباشد۔ وچوں ثابت شد کہ اتباع کسے بخلاف قول و فعل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جائز نیست پس استدلال بقول و فعل کسے بر مسئلہ از مسائل بر خلاف قول وفعل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چہ گونہ جائز باشد کہ ایں عین اتباع دیگرے بخلاف قول و فعل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم است و پست خم کردن ہنگام سلام خلاف قول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم است در سنن ترمذی رحمۃ اللہ علیہ مطبوعہ فخر المطابع دہلی 1269ھ(ص447)از انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ مروی است۔
قال:قال رجل: يا رسول الله صلي الله عليه وسلم! الرجل منا يلقيٰ اخاه او صديقه اينحني له؟قال:((لا))[1]الحدیث
امادست برداشتن تاسینہ یا تاپیشانی پس حدیثے دریں باب بنظر نیا مدہ البتہ ایں قدر بثبوت میر سد کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باشاہ دست سلام کردہ است ترمذی در سنن خود(ص443)از اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کردہ
"ان رسول الله صلي الله عليه وسلم مرفي المسجد يوما عصبة من النساء قعود فالوي بيده بالتسليم"[2]
و امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ہم درالادب المفرد (ص145و151)ایں دا از اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کردہ[3]
وہمچنیں آداب و بندگی را برسلام ترجیح دادن و سلام را معیوب و مسلم متکبر پنداشتن خلاف قول خداے تعالیٰ عزوجل و خلاف قول و فعل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم است خداے تعالیٰ اور سورہ نساء (رکوع 11) مے فرماید:
﴿وَإِذا حُيّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيّوا بِأَحسَنَ مِنها أَو رُدّوها ...﴿٨٦﴾... سورة النساء
ودرسورہ نور( رکوع 9)مے فرماید۔
﴿فَإِذا دَخَلتُم بُيوتًا فَسَلِّموا عَلىٰ أَنفُسِكُم تَحِيَّةً مِن عِندِ اللَّهِ مُبـٰرَكَةً طَيِّبَةً...﴿٦١﴾... سورة النور
وامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور صحیح بخاری مطبوعہ مصر جلد(4/71)در کتاب الاستیذان از ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کردہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمودہ
(( لما خلق الله آدم قال:اذهب فسلم علي اولئك لنفر من الملائكة جلوس فاستمع ما يحيونك فانها تحيتك وتحية ذريتك فقال:السلام عليكم فقالوا:السلام عليك ورحمة الله فزادوه ورحمة الله))[4]
واز انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت (ص72)کردہ کہ
"انه مر علي صبيان فسلم عليهم وقال:كان النبي صلي الله عليه وسلم يفعله"[5]
واز عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت (ص72)کردہ کہ مردے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم را پر سید کہ کدامی اسلام بہتر است؟فرمودہ
"((تطعم الطعام وتقرا السلام علي من عرفت وعلي من لم تعرف))[6]
واز براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت (ص72)کردہ۔
"قال امرنا رسول الله صلي الله عليه وسلم بسبع بعيادة المريض واتباع الجنائز وتشميت العاطس ونصر الضعيف وعون المظلوم وافثاء السلام وابرار المقسم"[7]
وا ابو ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ (ص72)روایت کردہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمودہ۔
"لا يحل لمسلم ان يهجر اخاه فوق ثلاث يلتقيان فيصد هذا ويصد هذا وخيرهما الذي يبدا بالسلام"[8]
و نیز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ در الادب المفرد (ص143)از براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کردہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمودہ ۔
((افشوا السلام تسلموا))[9]
واز ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (ص143)روایت کردہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمودہ:
((لا تدخلوا الجنة حتي تومنوا ولا تومنوا حتي تجابوا الا ادلكم علي ما تحابون به؟قالوا:بلي يارسول الله صلي الله عليه وسلم قال:افشوا السلام بينكم))[10]
واز عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت (ص143) کردہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمودہ۔
(اعبدوالرحمان واطعموا الطعام وافشوا السلام تدخلواالجنان))[11]
واذ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت(ص:143) کردہ کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم فرمود:
((اذا جاء احدكم المجلس فليسلم فان بداله ان يجلس فليجلس واذا قام فليسلم ما الاوليٰ باحق من الآخرة))[12]
واز عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت (ص144) کردہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمودہ۔
(ما حسدكم اليهود علي شئي ما حسدوكم علي السلام والتامين)[13]
واز ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (ص143)روایت کردہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمودہ:
(حق المسلم علي المسلم خمس قيل:وماهي؟قال:اذالقيته فسلم عليه)) [14]
واز عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت (ص151) کردہ
"قال:البخيل من بخل بالسلام"[15]
واز ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کردہ (ص151)
((قال:ابخل الناس الذي يبخل بالسلام))[16]
وطبرانی ایں معنی رااز ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ و عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرفوعاً ہم روایت کردہ۔
حکاہ المتذری فی کتاب الترغیب والترہیب (ص494)وجود اسنادہ۔
از احدیث مذکورہ بالا ہو یدا شد کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم برمردماں سلام میکر دو مرد ماں بروے صلی اللہ علیہ وسلم سلام میکر دندتا آنکہ خود بنفس نفیس بر کودکاں سلام میکردو میفرمود افشاء سلام کنید تا محبت زیادہ شودمے فرمود کہ از حقوق مسلم بر مسلم آنست کہ بوقت ملاقات بروے سلام کنومے فرمود کہ چوں دو مسلمان باہم دیگر ملاقی شوند پش ہر کہ از یشان ابتدا بسلام کنداوافضل از دیگر ست وایں سلام از سنن قدیمہ است کہ اوتعالیٰ ایں تحیت آدمی علیہ السلام و ذریت اوگردانیدہ
وعلاوہ بریں معلوم ہر کس است کہ خدائے تعالیٰ درنماز پنجگانہ فرستادن سلام رابہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم و بر جملہ بندگان خود کہ صالح باشد بر ہر مسلمان واجب گردانیدہ پس بایں ہمہ نصوص کہ دربارہ سلام وارد شدہ آداب و بندگی را بر سلام ترجیح دادن و سلام را معیوب و مسلم را متکبر پنداشتن چہ قدر راہ خلاف خدا عزوجل و حضرت پیغامبر صلی اللہ علیہ وسلم لیمودن است و حال مخالفت خدا رسول کردن را خود خدائے عزوجل در آخر سورہ نورمی فرماید:
﴿فَليَحذَرِ الَّذينَ يُخالِفونَ عَن أَمرِهِ أَن تُصيبَهُم فِتنَةٌ أَو يُصيبَهُم عَذابٌ أَليمٌ ﴿٦٣﴾... سورةالنور
و معلوم ہمہ کس است کہ حال ابلیس لعین انچہ شد نتیجہ ہمیں مخالفت حکمی از احکام خدا وندی بود وبس۔ پس مسلمانان را باید کہ ایں قسم خیالات فاسدہ و ساوس شیطانیہ رارد دلہائے خود جانہ دہند و از اتباع ابلیس لعین و از دخولدر زمرہ ابالسہ و شیاطین خود رابسیار دوردارند۔ قال اللہ تعالیٰ ۔
﴿إِنَّ الشَّيطـٰنَ لَكُم عَدُوٌّ فَاتَّخِذوهُ عَدُوًّا إِنَّما يَدعوا حِزبَهُ لِيَكونوا مِن أَصحـٰبِ السَّعيرِ ﴿٦﴾... سورة الفاطر
(جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کے خلاف کسی کا اتباع کرنا ہر گز جائز نہیں ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر اس شخص کو جو اس سے محبت کرتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کرنے کا حکم دیا ہے چنانچہ سورت آل عمران کے چوتھے رکوع میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
﴿ قُل إِن كُنتُم تُحِبّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعونى يُحبِبكُمُ اللَّهُ وَيَغفِر لَكُم ذُنوبَكُم...﴿٣١﴾... سورة آل عمران
’’کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھیں تمھارے گناہ بخش دے گا۔‘‘
رسل عظم۔علی نبینا وعلیھم الصلاۃ والسلام۔کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اسی اتباع کے لیے بھیجا گیا تھا۔سورۃ النساء کے نویں رکوع میں ارشاد الٰہی ہے:
﴿وَما أَرسَلنا مِن رَسولٍ إِلّا لِيُطاعَ بِإِذنِ اللَّهِ...﴿٦٤﴾... سورة النساء
’’اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا،مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی فرماں برداری کی جائے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت عین اطاعت خدا ہے۔چنانچہ سورۃ النساء کےگیارھویں رکوع میں فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿مَن يُطِعِ الرَّسولَ فَقَد أَطاعَ اللَّهَ...﴿٨٠﴾... سورة النساء
’’جو رسول کی فرماں برداری کرے تو بے شک اس نے اللہ کی فرماں برداری کی۔‘‘
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت عین خداتعالیٰ کی مخالفت ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل کے برخلاف کسی کا اتباع کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت ہے،لہذا یہ جائز نہیں ہے۔جب یہ ثابت ہوگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل کے برخلاف کسی کااتباع جائز نہیں ہے تو کسی مسئلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل کے برخلاف دوسروں کی اتباع کرنا ہے۔
سلام کے وقت پشت کو جھکانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے خلاف ہے۔چنانچہ سنن ترمذی(ص:447) مطبوعہ فخر المطابع دہلی 1269ھ) میں انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:
’’بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ہم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی یادوست سے ملاقات کرتا ہے تو کیا وہ اس کے سامنے کمر کوجھکائے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’نہیں ۔‘‘
رہا سلام کے وقت ہاتھ کو سینے یا پیشانی تک اٹھانا تو اس موضوع پر کوئی حدیث نظر سے نہیں گزری ہے۔البتہ اتنا ثبوت ضرور ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کے اشارے کے ساتھ سلام کیا ہے۔امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سنن(ص:443) میں اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی حدیث بیان کیا ہے:
’’بلاشبہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں سے گزرے تو وہاں عورتوں کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی،پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کو ہلاکر اشارے کر تے ہوئے سلام کیا۔‘‘
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی"الادب المفرد"(ص:145،151) میں اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اس مفہوم کی روایت نقل کی ہے۔ایسے ہی آداب وبندگی کو سلام پر ترجیح دینا،سلام کو معیوب خیال کرنا اورسلام کرنے والے کو متکبر سمجھنا خدا تعالیٰ کے قول اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل کے برخلاف ہے۔
اللہ تعالیٰ سورۃ النساء کے گیارھویں رکوع میں ارشاد فرماتے ہیں:
﴿وَإِذا حُيّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيّوا بِأَحسَنَ مِنها أَو رُدّوها ...﴿٨٦﴾... سورة النساء
’’اور جب تمھیں سلامتی کی کوئی دعا دی جائے تو تم اس سے اچھی سلامتی کی دعا دو یا جواب میں وہی کہہ دو۔‘‘
اسی طرح سورۃ النور کے نویں رکوع میں فرماتے ہیں:
﴿فَإِذا دَخَلتُم بُيوتًا فَسَلِّموا عَلىٰ أَنفُسِكُم تَحِيَّةً مِن عِندِ اللَّهِ مُبـٰرَكَةً طَيِّبَةً...﴿٦١﴾... سورة النور
’’پھر جب تم کسی طرح کے گھروں میں داخل ہو توا پنے لوگوں پر سلام کہو ،زندہ سلامت رہنے کی دعا جو اللہ کی طرف سے مقرر کی ہوئی بابرکت ،پاکیزہ ہے۔‘‘
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری"کتاب الاستیذان"(71/4) مطبوعہ مصر) میں ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیداکیا تو فرمایا:جاؤ اس جماعت کو سلام کرو،اس جماعت میں چند فرشتے بیٹھے ہوئے تھے،وہ آپ کو جواب دیں،وہ غور سے سنیں،چنانچہ وہی جواب تمہارا اور تمہاری اولاد کا ہوگا۔وہ گئے اور انہوں نے ان سے کہا:السلام علیکم!انھوں نےکہا:السلام علیک و رحمۃ اللہ! انھوں نے انھیں لفظ رحمۃ اللہ کا زائد جواب دیا۔‘‘
نیز انھوں نے انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے (ص:72) روایت کی ہے:
’’بلاشبہ وہ(انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) بچوں کے پاس سے گزرے اور انھیں سلام کیا اور کہا کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی کیاکرتے تھے۔‘‘ اسی طرح عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے (ص:72) پر روایت کی ہے:
’’ایک شخص نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا،کون سا(آداب) اسلام بہتر ہے؟‘‘
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( تطعم الطعام وتقرا السلام علي من عرفت وعلي من لم تعرف))
’’(یہ کہ) تم کھانا کھلاؤ اور تم جسے جانتے ہو اسے بھی اور جس نہیں جانتے اسے بھی سلام کرو۔‘‘
ایسے ہی براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے(ص:72) روایت نقل کی ہے:
’’کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سات کاموں کا حکم دیا:مریض کی تیماداری کرنے کا،جنازوں میں شرکت کرنے کا،چھینک مارنے والے کاجواب دینےکا،ضعیف وناتواں کی مدد کرنے کا ،مظلوم کی مدد کا،سلام کو عام کرنے اور قسم اٹھانے والے کو اس کی قسم سےبری کرنے کا۔‘‘
اسی طرح ابو ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے(ص:72) روایت کیا ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے(مسلمان) بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی کرے،دونوں ملتے ہیں تو وہ اس سے اعراض کرتا ہے اور وہ اس سے ،ان دونوں میں سے بہتر وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرتا ہے۔‘‘
نیز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے"الادب المفرد"(ص:143) میں براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیاہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’سلام پھیلاؤ تم سلامت رہو گے۔‘‘
اسی طرح ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے(ص:143) روایت کیاہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تم اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہوگے،جب تک تم مومن نہیں بن جاتے اور تم اس وقت تک مومن نہیں بن سکتے،جب تک تم باہم محبت کرتے۔کیا میں تمھیں ایسی چیز نہ بتاؤں،جس کے ساتھ تم باہم محبت کرنے لگ جاؤ؟انھوں نے عرض کی:کیوں نہیں،اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’آپس میں سلام پھیلاؤ۔‘‘
نیز عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے(ص:143) روایت کی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’رحمان کی عبادت کرو،کھانا کھلاؤ،سلام پھیلاؤ،تم جنتوں میں داخل ہوجاؤ گے۔‘‘
ایسے ہی ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے(ص:144) ر وایت کی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب تم میں سے کوئی شخص مجلس میں آئے تو سلام کہے۔اگر تو وہ بیٹھنا چاہے تو بیٹھ جائے اور جب وہ کھڑا ہو(اور جانے کا ارادہ کرے) تو سلام کرے،پہلی دوسری سے زیادہ حق نہیں رکھتی۔‘‘
اسی طرح عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے(ص:144) روایت کی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’یہودی تمہارے سلام اور آمین کہنے پر جتنا حسد کرتے ہیں وہ تمہارے کسی اور عمل پر نہیں کرتے۔‘‘
نیز ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے(ص:144) روایت کی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں،پوچھا گیا وہ کون کون سے ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب تم اس سے ملو تو سلام کہو۔الحدیث۔‘‘
ایسے ہی عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے(ص:151) روایت کی ہے:
’’انھوں نے فرمایا:بخیل ہے وہ جو سلام کرنے میں بھی بخل کرتا ہے۔‘‘
اسی طرح ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے(ص:151) روایت کی ہے:
’’انھوں نے کہا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ بخیل وہ ہے جو سلام کہنے میں بخل کرتا ہے۔‘‘
امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مضمون کو ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً بھی روایت کیا ہے۔امام منذری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے کتاب "الترغیب والترہیب"میں(ص:494) ذکر کیا اور اس کی سند کو عمدہ قرار دیاہے۔
مذکورہ بالا احادیث سے یہ واضح ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو سلام کرتے تھے اور مرد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے تھے،حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود بچوں کو سلام کرتے اور فرماتے کہ باہم سلام پھیلاؤ،تاکہ آپس میں محبت بڑھ جائے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی فرماتے کہ مسلمان کے مسلمان پر حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اس سے ملاقات کے وقت سلام کرے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ جب دو مسلمان باہم ملاقات کرتے ہیں تو جو ان میں سے پہلےسلام کرتا ہے وہ دوسرے سے افضل ہے۔یہ سلام قدیم سنتوں میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کا سلام قرار دیا ہے۔اس کے علاوہ ہرایک کو یہ بات معلوم ہے کہ خدا تعالیٰ نے پانچ نمازوں میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے نیک بندوں پر سلام کرنا ہر مسلمان پر واجب کیاہے۔سلام کے بارے میں وارد ہونے والی ان تمام نصوص کے باوجود آداب وبندگی کوسلام پر ترجیح دینا،سلام کو معیوب اور سلام کرنے والے کو متکبر خیال کرنا خدا تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ کے خلاف راہ تلاش کرنا ہے۔خدا تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کے انجام خود اللہ تعالیٰ نے سورۃ النور کے آخر پر یوں بیان کیا ہے:
﴿فَليَحذَرِ الَّذينَ يُخالِفونَ عَن أَمرِهِ أَن تُصيبَهُم فِتنَةٌ أَو يُصيبَهُم عَذابٌ أَليمٌ ﴿٦٣﴾... سورةالنور
’’سو لازم ہے کہ وہ لوگ ڈریں جو اس کا حکم ماننے سے پیچھے رہتے ہیں کہ انھیں کوئی فتنہ آپہنچے،یا انھیں دردناک عذاب آپہنچے۔‘‘
﴿إِنَّ الشَّيطـٰنَ لَكُم عَدُوٌّ فَاتَّخِذوهُ عَدُوًّا إِنَّما يَدعوا حِزبَهُ لِيَكونوا مِن أَصحـٰبِ السَّعيرِ ﴿٦﴾... سورة الفاطر
’’بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے تو اسے دشمن ہی سمجھو۔وہ تو اپنے گروہ والوں کو صرف اس لیے بلاتا ہے کہ وہ بھڑکتی آگ والوں سے ہوجائیں۔‘‘
[1] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۷۲۸)
[2] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۶۹۷)
[3] الأدب المفرد للبخاري (۱۰۴۷)
[4] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۵۸۷۳)
[5]صحیح البخاري، رقم الحدیث (۵۸۹۳) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۱۶۸)
[6] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۲) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۳۹)
[7] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۵۸۸۱) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۰۶۶)
[8]صحیح البخاري، رقم الحدیث (۵۸۸۳) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۵۷۲۷)
[9] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۵۴) الأدب المفرد (۹۸۰)
[10] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث (54)الادب المفرد (980)
[11]سنن الترمذي، رقم الحدیث (۱۸۵۵) الأدب المفرد (۹۸۱)
[12] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۷۰۶) الأدب المفرد (۹۸۶)
[13] سنن ابن ماجه، رقم الحدیث (۸۵۶) الأدب المفرد (۹۸۸)
[14صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۱۶۲) الأدب المفرد (۹۹۱)
[15] الأدب المفرد (۱۰۴۱) یہ ایک موقوف حدیث کے الفاظ ہیں، جو سنداً بھی ضعیف ہے، البتہ اس معنی میں اگلی حدیث صحیح ہے۔ دیکھیں: السلسلة الصحیحة، رقم الحدیث (۶۰۱)
[16] صحیح ابن حبان (۱۰/ ۳۴۹)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب