السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مصافحہ میں دونوں ہاتھوں کا شمول ضرور ہے یا نہیں اور نہیں ہے تو ایک ساتھ سے مصافحہ کرنے کی کیا دلیل ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مصافحہ ایک ہاتھ سے بلکہ دائیں ہاتھ سے تو متفق علیہ ہی ہے اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے اختلاف ہے تو صرف اس میں ہے کہ مصافحہ میں بائیں ہاتھ کا شمول بھی ضرورہے یا نہیں ؟جو کہتا ہے کہ ضرور ہے وہی مدعی ہے اس دعوی کابار ثبوت اسی کے ذمہ ہے اور جو کہتا ہے ضرور نہیں ہے وہ منکر ہے اور منکر کے ذمہ بار ثبوت نہیں ہوتا تاہم منکر کی طرف سے دلیل حسب ذیل ہے۔
1۔شرع شریف کا یہ ایک مستمرہ قانون ہے کہ جو امور کہ از باب تکریم و تشریف ہوں وہ دائیں ہاتھ سے کیے جائیں اور جو امور کہ تکریم و تشریف کے خلاف ہوں وہ بائیں سے کیے جائیں اور مصافحہ از قسم اول ہے پس مصافحہ بحکم قانون مذکور دائیں ہاتھ سے کیا جائے ۔قانون مذکور کو امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح صحیح مسلم میں زیر حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا :
"إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُحِبُّ التَّيَمُّنَ فِي طُهُورِهِ إِذَا تَطَهَّرَ ، وَفِي تَرَجُّلِهِ إِذَا تَرَجَّلَ ، وَفِي انْتِعَالِهِ إِذَا انْتَعَلَ "وفي رواية((يحب التيمن في شانه كله))"[1](الحدیث)
(بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پسند تھی کہ جب وضو کریں تو دائیں طرف سے شروع کریں اور جب کنگھی کریں تو دائیں طرف سے کنگھی کرنا شروع کریں اور جوتا پہنیں تو پہلے دایاں جوتا پہنیں اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے تمام کاموں میں بھی دائیں طرف سے شروع کرنا پسند فرماتے تھے )
بوضاحت تمام تحریر فرمایا ہے عبارت شرح صحیح مسلم کی یہ ہے۔
" هذه قاعدة مستمرة في الشرع وهي ان ما كان من باب التكريم والتشريف كلبس الثوب والسراويل والخف ودخول المسجد والسواك والاكتحال وتقليم الاظفار وقص الشارب وترجيل الشعر وهو مشطه ونتف الابط وحلق الراس والسلام من الصلاة وغسل اعضاء الطهارة والخروج من الخلاء والاكل والشرب والمصافحة واستلام الحجر الاسود وغير ذلك مما هو في معناه يستحب التيامن فيه واماماكان بضده كدخول الخلاء والخروج من المسجد والامتخاط والاستنجاء وخلع الثوب والسراويل والخف وما اشبه ذلك فيستحب التياسر فيه وذلك كله لكراهة اليمين وشرفها"[2] انتهي
(یہ شرع میں ایک مستقل قاعدہ ہے کہ جو کام تکریم و تشریف کے باب سے ہوں جیسے شلوار قمیص اور موزے پہننا مسجد میں داخل ہونا مسواک کرنا سرمہ لگانا ناخن تراشنا مونچھیں کاٹنا بالوں میں کنگھی کرنا بغلوں کے بالاکھاڑنا سر مونڈھنا نماز میں سلام پھیرنا اعضائے وضو کو دھونا بیت الخلاسے نکلنا کھانا پینا مصافحہ کرنا حجراسود کا استلام کرنا اور ان کے علاوہ کام جو اس قسم کے ساتھ تعلق رکھتے ہوں ان میں دائیں طرف سے شروع کرنا پسندیدہ ہے اور جو کام ان کے برعکس ہوں جیسے بیت الخلا میں داخل ہونا۔
مسجد سے نکلنا ناک صاف کرنا استنجا کرنا شلوار قمیص اور موزے اتارنا اور جو اس قسم کے دیگر کام ہیں ان کو بائیں ہاتھ (اور جانب ) سے کرنا مستحب ہے یہ سب کچھ دائیں ہاتھ (اور جانب ) کی کرامت و شرف کے سبب سے ہے)
اس قانون شرع کو حضرت سیدی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی "غنیة الطالبین "میں ذکر فرمایا ہے "غنیة الطالبین "کی عبارت یہ ہے۔
"فصل فيما يستحب فعله بيمينه وما يستحب فعله بشماله يستحب له تناول الاشياء بيمينه والاكل والثرب والمصافحة(الي قوله) واما الشمال فلفعل الاشياء المستقذرة وازالة الدرن كالا ستنثار والا ستنجاء وتنقية الانف وغسل النجاسات كلها"(ص:٥٢)
(ان کاموں کے بارے میں فصل جن کو دائیں ہاتھ سے کرنا مستحب ہے اور جن کو بائیں ہاتھ سے کرنا مستحب ہے اشیا کو لینا دینا کھانا پینا اور مصافحہ کرنا دائیں ہاتھ سے مستحب ہے رہا بایاں ہاتھ تو وہ اشیاے مستقدرہ میل اتارنے جیسے ناک جھاڑنے استنجا کرنے ناک صاف کرنے اور تمام نجاستوں کو صاف کرنے کے لیے ہے)
2۔مصافحہ عند اللقاء کے معنی ہیں ایک شخص کا اپنی ہتھیلی کو دوسرے کی ہتھیلی کے ساتھ ملانا ۔"لسان العرب" میں ہے۔
"الرجل يصافح الرجل اذا وضع صفح كفه في صفح كفه وصفها كفيهما وجهامهما ومنه حديث المصافحة عند اللقاء"انتهي[3]
(آدمی دوسرے آدمی سے مصافحہ کرنے والا اس وقت شمار ہوتا ہے جب وہ اپنی ہتھیلی دوسرے کی ہتھیلی کے ساتھ ملاتا ہے جب وہ دونوں اپنی ہتھیلیوں کے چہرے ایک دوسرے سے ملاتے ہیں اور ملاقات کے وقت مصافحہ کرنے والی حدیث اسی سے ہے)
یہ ظا ہر ہے کہ مصافحہ کے یہ معنی متصافحین کےایک ایک ہاتھ کے ملا لینے سے حاصل ہو جاتے ہیں اس معنی کے حصول میں ہر ایک کے دونوں ہاتھوں کو ملائیں تو اگر مقراضی طور پر ملائیں تو مصافحہ دواہر اہو جاتا اور دو مصافحہ کا ثبوت ایک ملا قات کے وقت کہیں سے نہیں ہوتا اور اگر مقراضی طورپر نہ ملائیں تو ہر ایک کے بائیں ہاتھوں کو مصافحہ بمعنی مذکور میں کچھ دخل نہیں ہوتا۔
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۶۸)
[2]شرح صحیح مسلم للنووي (۳/ ۱۶۰)
[3] لسان العرب (۲/ ۵۱۲)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب