السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید ایک دوپٹہ اس طرح ڈالتا ہے کہ ایک سر اآگے لٹکاتا ہے اور دوسرا سرا بائیں ہاتھ کے نیچے سے لے جاکر داہنے شانہ پر پیچھے کی جانب لٹکالیتا ہے نماز بھی اسی طرح پڑھتا ہے عمرو کہتا ہے کہ یہ سدل ثواب ہے جو مکروہ ہے زید کا قول ہے کہ اس پر سدل ثوب کی تعریف صادق نہیں آتی ہے اور احادیث سے صاف ظاہر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ملتحفاًنماز پڑھی ہے شمائل میں براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث چادر اوڑھنے میں جو مروی ہے نفس اس امر کو کہ ایک سرا آگے کی جانب اور دوسرا پیچھے کی جانب لٹکانے میں شامل ہے پس امر استفسار طلب یہ ہے کہ سدل کی عند الفقہاء کیا تعریف ہے اور یہ امر سدل ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
1۔سدل کی تعرف عند الفقہاء حسب ذیل ہے۔
"في الهدايه:" هو ان يجعل ثوبه علي راسه او كتفيه ثم يرسل اطرافه من جوانبه"[1]
(ہدایہ میں ہے (سدل یہ ہے کہ) وہ اپنا کپڑا اپنے سر یا کندھوں پر رکھے پھر اس کے کناروں کو (بغیر ملائے )چھوڑدے)
"وفي شرح وقايه نقلا عن المغرب:"هو ان يرسله من غير ان يضم جانبيه"[2]
(شرح وقادیہ میں مغرب سے نقل کیا گیا ہے کہ وہ (سدل ) یہ ہے کہ اس کے کناروں کو (بغیر ملائے )چھوڑدے)
"وفي عالمگيرية:"هو ان يجعل ثوبه علي راسه او كتفيه فيرسل جوانبه"[3]
(فتاوی عالمگیری میں ہے (سدل یہ ہے کہ) وہ اپنا کپڑا اپنے سر یا کندھوں پر رکھے پھر اس کے کناروں کو (بغیر ملائے )چھوڑدے)
"وفي رد المختار نقلاً عن البحر الرائق:"وفسره الكرخي بان يجعل ثوبه علي راسه او علي كتفيه ويرسل اطرافه من جانبيه اذا لم يكن عليه سراويل"[4]
(ردالمختار میں النحر الرائق سے نقل کیا گیا ہے کرخی نے اس (سدل ) کی تفسیر یہ کی ہے کہ وہ اپنا کپڑا اپنے سر یا کندھوں پر رکھے پھر اس کے کناروں کو (بغیر ملائے )چھوڑدےاور وہ پائجامہ نہ پہنے ہوئے ہو)
حاصل ان عبارات کا یہ ہے کہ سدل یہ ہے کہ چادر یا دوپٹہ یا دوسرا کپڑا سر یا شانے پر رکھ کر اس کے اطراف کو بغیر ملائے ہوئے چھوڑدیں کرخی نے سدل کی تعریف میں ایک قید اور بڑھائی ہے وہ یہ ہے پائجامہ نہ پہنے ہوں تب امر مذکور ہ سوال سدل میں داخل نہیں ہے سدل میں کپڑے کے اطراف کا نہ ملانا بھی شرط ہے جیسا کہ تعریف سدل سے جو بلا مذکور ہوئی واضح ہوا اور صورت مسئولہ میں جب دوپٹہ کا ایک سرا آگے لٹکا یا گیا اور دوسرا سر ابائیں ہاتھ کے نیچے سے لے جاکر داہنے شانہ پر پیچھے کی جانب لٹکایا گیا تو دونوں طرف اس کے مل جائیں گے واللہ اعلم بالصواب۔ کتبہ محمد عبداللہ۔
[1]الھدایة (۱/ ۶۴)
[2] ۔ شرح الوقایة (۱/ ۱۴۳)
[3] الفتاویٰ الھندیة (۱/ ۱۰۶)
[4] ۔رد المحتار (۱/ ۶۳۹)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب