سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(450) ٹوپی پر محمڈن برادر لکھنا اور اسے پہن کر بیت الخلا ء جانا

  • 23215
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1200

سوال

(450) ٹوپی پر محمڈن برادر لکھنا اور اسے پہن کر بیت الخلا ء جانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

1۔ ٹوپی پر محمڈن برادر لکھنا جائز ہے یا نہیں؟

2۔جس ٹوپی پر محمڈن برادر لکھا ہو اس ٹوپی کو پہن کر پاخانہ جانا جائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

۔ 1۔ ٹوپی پر محمڈن برادر لکھنے کے ناجائز ہونے کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی ہاں صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   جو دعوت نامے اسلام کے کافر بادشاہوں کے پاس بھیجتے تھے ان پر مہر کر کے بھیجتے تھے جس پر "محمدرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  "منقوش تھا نیز ان نامہ جات میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اور قرآن مجید کی آیت لکھی ہوتی تھی مشکوۃ(ص370)میں ہے۔

" عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنّ النّبِيّ صلى الله عليه وسلم أَرَادَ أَنْ يَكْتُبَ إِلَى ‏كِسْرَى ‏‏وَقَيْصَرَ ‏ ‏وَالنَّجَاشِيِّ ‏، ‏فَقِيلَ له:  إِنَّهُمْ لَا يَقْبَلُونَ كِتَابًا إِلَّا بِخَاتَمٍ ،‏ ‏فَصَاغَ رَسُولُ اللَّهِ ‏‏صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ‏خَاتَمًا حَلْقَتُهُ فِضَّةً ، وَنَقَشَ فِيهِ :‏ ‏مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّه فكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى بَيَاضِهِ فِي كَفِّه" [1](روا مسلم )

(انس  رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  بیان کرتے ہیں کہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم   نے کسری و قیصر و نجاشی کے نام خط لکھنے کا ارادہ فرمایا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   سے عرض کی گئی کہ وہ صرف سر بمہر خط ہی وصول کرتے ہیں تب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے چاندی کے حلقے کی انگوٹھی بنوائی اس میں’’محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  ‘‘نقش کیا گیا )

صحیح بخاری(24/1مصری)میں ہے۔

أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ  صلي الله عليه وسلم بَعَثَ بِكِتَابِهِ رَجُلاً ، وَأَمَرَهُ أَنْ يَدْفَعَهُ إِلَى عَظِيمِ الْبَحْرَيْنِ ، فَدَفَعَهُ عَظِيمُ الْبَحْرَيْنِ إِلَى كِسْرَى ، فَلَمَّا قَرَأَهُ مَزَّقَهُ . فَحَسِبْتُ أَنَّ ابْنَ الْمُسَيَّبِ قَالَ فَدَعَا عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ يُمَزَّقُوا كُلَّ مُمَزَّقٍ . صحيح البخاري في كتاب الجهاد. [2]

(سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے ایک آدمی کو خط دے کر روانہ کیا اور اسے سربراہ بحرین کے حوالے کردے چنانچہ سربراہ بحرین نے یہ خط کسری کے حوالے کیا جب اس نے پڑھا تو اس نے اسے چاق کردیا)

خلیفہ عبد الملک نے خیر القرون خصوصاً صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین  اشرفیاں جاری کی تھیں ان پر قرآن مجید اور کلمہ طیبہ لکھا تھ اور خلیفہ مذکور کے اس فعل پر کسی صحابی یا تابعی کا انکار ثابت نہیں"تاریخ الخلفاء"(ص128)میں ہے۔

وقال يحيى بن بكير: سمعت مالكاً يقول: أول من ضرب الدنانير عبد الملك وكتب عليها القرآن وقال مصعب: كتب عبد الملك على الدنانير " قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ " " الإخلاص: 1 " وفي الوجه الآخر لا إله إلا الله وطوقه بطوق فضة وكتب فيه ضرب بمدينة كذا وكتب خارج الطوق محمد رسول الله أرسله بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ"

(یحییٰ بن بکیر نے کہا ہے کہ میں نے امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ  کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ سب سے پہلے عبدالملک  رحمۃ اللہ علیہ  نے اشرفیاں جاری کی تھیں ان پر قرآن مجید لکھا تھا مصعب  رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا ہے کہ عبد الملک  رحمۃ اللہ علیہ  نے اشرفیوں کی ایک جانب قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ "اور دوسری جانب "لا اله الاالله" لکھوایا تھا اس کے گرد چاندی کا ایک حلقہ ہوتا تھا اور اس حلقے پر ٹکسال کے شہر کا نام اور حلقے سے خارج میں ' محمد رسول الله أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ " لکھا تھا)

ٹوپیوں اور اشرفیوں میں جو ایک بہت بڑا فرق ہے قابل لحاظ ہے وہ یہ کہ ٹوپیاں صرف سر ہی پر رکھی جاتی ہیں اور اشرفیوں میں یہ قید نہیں ہے بلکہ جہاں چاہے رکھے اور خلیفہ مذکور نے صدور طوامیرمیں:

قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ اور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   کا ذکر مع تاریخ لکھنا جاری کیا تھا تو سلطان روم نے خلیفہ مذکورکو لکھ بھیجا تھا کہ اس فعل کو ترک کردو ورنہ ہم اپنی اشرفیوں پر بھی ایسی بات لکھیں گے جو تم کوناگوارہوگی مگر خلیفہ مذکور نے اس کو ترک نہ کیا بلکہ بدستور جاری رکھا۔

تاریخ الخلفاء"(ص148)

"وفي الأوائل للعسكري بسنده: كان عبد الملك أول من كتب في صدور الطوامير " قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ " " الإخلاص: 1 " وذكر النبي صلى الله عليه وسلم مع التاريخ فكتب ملك الروم: إنكم أحدثتم في طواميركم شيئاً من ذكر نبيكم فاتركوه وإلا أتاكم من دنانيرنا ذكر ما تكرهون فعظم ذلك على عبد الملك فأرسل إلى خالد بن يزيد ابن معاوية فشاوره فقال حرم دنانيرهم واضرب للناس سككاً فيها ذكر الله وذكر رسوله ولا تعفهم مما يكرهون في الطوامير فضرب الدنانير للناس سنة خمس وسبعين"

(عسکری کی ’’الاوائل میں سند کے ساتھ روایت ہے کہ خلیفہ عبد الملک  رحمۃ اللہ علیہ  وہ پہلا شخص ہے جس نے صدور طوامیر پر " قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ " اور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   کا ذکر مع تاریخ لکھنا شروع کیا تھا سلطان روم نے خلیفہ مذکورکو لکھ بھیجا تھا کہ تم نے اپنی اشرفیوں پر اپنے نبی ذکر وغیرہ کیا ہے لہٰذا تم اس فعل کو ترک کر دو ورنہ تمھارے پاس ہماری اشرفیاں آئیں گی جن پر اس چیز کا ذکر ہو گا جو تمھیں ناگوار گزرے گی خلیفہ عبد الملک پر یہ بات بہت گراں گزری اس نے خالد بن یزید بن معاویہ سے مشورہ کیا تو انھوں نے یہ مشورہ دیا کہ ان کی اشرفیوں کو اپنے پاس آنے سے بند کر دو اور لوگوں کے لیے ایسے سکے جاری کرو جن میں اللہ اور اس کے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کا ذکر ہوا اور جن طواامیر کو وہ ناپسند کرتے ہیں ان کو بند نہ کرو۔ چنانچہ سنہ پچھتر (75)ہجری میں لوگوں کے لیے   اشرفیاں جاری کی گئیں )

2۔جس ٹوپی پر محمڈن برادر لکھا ہو اس ٹوپی کو پہن کر پاخانہ میں جانے کے ناجائز ہونے کی کوئی صحیح وجہ معلوم نہیں ہوتی اور یہ حدیث ہے کہ:

كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا دخل الخلاء نزع خاتمه . [3]

’’یعنی جب نبی  صلی اللہ علیہ وسلم   پاخانہ جاتے تو اپنی انگشتری مبارک کو(جس میں محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   منقوش تھا) اتاردیتے تھے۔‘‘

سو اس حدیث سے ٹوپی مذکور کو پہن کر پاخانہ میں جانے کی ناجوازی پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔

اولاً:اس وجہ سے کہ اس کو ابودؤد نے منکر اور نسائی نے غیر محفوظ کہا ہے اور حدیث منکر اور غیر محفوظ مقبول حدیثوں میں نہیں اور جن آئمہ حدیث نے اس کی تصحیح کی ہے جیسے ترمذی اور حاکم وہ لوگ باب تصحیح احادیث میں متساہل مشہور ہیں،

ثانیا :اس وجہ سے کہ اس حدیث کی اسناد میں ایک راوی"ابن جریج "مدلس ہیں اور انھوں نے اس حدیث کو زہری سے عن کے ساتھ روایت کیا ہے اور راوی مدلس کی معتعن حدیث حجت نہیں "تذھة النظر" میں ہے۔

"وحكم من ثبت عنه التدليس اذا كان عدلا ان لا يقبل منه الا ماصرح فيه بالتحديث علي الاصح"[4]

(صحیح قول کے مطابق مدلس راوی جب عادل ہو تو اس کی صرف وہی روایت مقبول ہو گی جس میں وہ "حدثنا" وغیرہ کے ساتھ (اپنے سماع کی) تصریح کرے)

ثانیا: اس وجہ سے کہ نام عظمت مسمی کی عظمت کی فرع ہے اور جب نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   بنفس نفیس پاخانہ میں تشریف لے جاتے تھے اور اس سے آپ عظمت میں کچھ فرق نہیں آتا تھا تو اس انگشتری کے پا خانہ میں لے جانے سے جس میں آپ کا نام مبارک منقوش تھا عظمت میں کیا فرق آسکتا ہے؟ان وجوہ سے ظاہر ہو تا ہے کہ اس حدیث کی صحت محل نظر ہے۔


[1] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث (2092)

[2] ۔صحیح البخاري رقم الحدیث (64)

 [3] ۔سنن ابي داؤد رقم الحدیث (19)سنن التر مذي رقم الحدیث (1746)سنن النسائي رقم الحدیث (5213) سنن ابن ماجه رقم الحدیث (303)

[4] ۔نزھة النظر (ص104)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب اللباس والزینۃ،صفحہ:687

محدث فتویٰ

تبصرے