سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(441) سودی اور حلال دونوں کاروبار کرنے والے کی دعوت قبول کرنا

  • 23206
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1833

سوال

(441) سودی اور حلال دونوں کاروبار کرنے والے کی دعوت قبول کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ دعوت قبول کرنا اسی شخص کے یہاں،جومال سود کا بھی کسب کرتا ہے اور مال تجارت وغیرہ سے بھی کسب کرتاہے،درست ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسئولہ میں دعوت قبول کرنا ایسے شخص کے یہاں ہرگز جائز نہیں،خاص کر عالم دیندار کو کئی وجہ سے۔ایک تو یہ کہ ایسے لوگ بدلیل شرعی فاسق  ہیں اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے دعوت قبول کرنے فاسقوں کے یہاں سے منع فرمایا ہے،جیسا کہ مشکاۃ میں بروایت عمران بن حصین  رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  کے ثابت ہوا:

"عن عمران بن حصين قال:نهيٰ رسول الله صلي الله عليه وسلم عن اجابة طعام الفاسقين"[1]

(عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے فاسقوں کے کھانے کی دعوت قبول کرنے سے منع فرمایا ہے)

دوسرے یہ کہ اس کا مال مشتبہ ہے اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے جیسا کہ حرام سے بچنے کی تاکید  فرمائی،ویسا ہی مشتبہات سے بھی بچنے کی تاکید فرمائی،جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  سے روایت کیا ہے:

" عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهم عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : وَأَهْوَى النُّعْمَانُ بِإِصْبَعَيْهِ إِلَى أُذُنَيْهِ ! إِنَّ الْحَلالَ بَيِّنٌ ، وَإِنَّ الْحَرَامَ بَيِّنٌ ، وَبَيْنَهُمَا مُشْتَبِهَاتٌ لا يَعْلَمُهُنَّ كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ ، فَمَنِ اتَّقَى الشُّبُهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ ، كَالرَّاعِي يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يَرْتَعَ فِيهِ ، أَلا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى ، أَلا وَإِنَّ حِمَى اللَّهِ مَحَارِمُهُ ، ألا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ ، أَلا وَهِيَ الْقَلْب))[2]

"نعمان بن بشیر  رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:حلال واضح ہے اور حرام(بھی) واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ شبہے والی چیزیں ہیں،جن سے اکثر لوگ واقف نہیں ہیں تو جس نے شبہے والے چیزوں سے اجتناب کیا،اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو بچالیا اور جو کوئی شبہے والی چیزوں میں مبتلا ہوگیا،وہ حرام میں مبتلا ہوجائےگا،جیسےممنوعہ چراگاہ کے ارد گرد بکریاں چرانے والا،ہوسکتا ہے کہ (نادانستہ طور پر) اسکے اندر(جانور)چرالے(اور اس طرح مجرم قرار پائے) خبردار!ہر بادشاہ کی ایک ممنوعہ چراگاہ ہوتی ہے(جس میں عام لوگوں کے جانوروں کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے)خبردار!اللہ تعالیٰ کی ممنوعہ چراگاہ سے مراد اس کی حرام کردہ چیزیں (اور کام) ہیں۔سن لو! جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے،اگر وہ صحیح ہوتو سارا جسم صحیح ہوتاہے اور اگر وہ خراب ہوجائے تو سارا جسم خراب ہوجاتاہے۔سنو!وہ دل ہے۔‘‘

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  اس کی تفسیر میں حدیث عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  کی لایا ہے اور وہ یہ ہے:

"عن عدي بن حاتم قال:سالت النبي صلي الله عليه وسلم عن المعراض فقال:اذا اصاب بحده فكل واذا اصاب بعرضه فلا تاكل فانه وقيذ قلت:يا رسول الله صلي الله عليه وسلم! ارسل كلبي واسمي فاجد معه علي الصيد كلبا آخر لم اسم عليه ولا ادري ايهما اخذ؟قال:لاتاكل انما سميت علي كلبك ولم تسم علي الآخر"[3]انتهي

’’عدی بن حاتم  رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم   سے بھالے سے شکار کے بارےمیں سوال کیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:’’ اگر وہ دھار کی طرف سے لگا ہوتو کھا لو اور اگر موٹائی کی طرف سے لگا ہوتو مت کھاؤ،بلاشبہ وہ چوٹ زدہ ہوگا۔میں نے عرض کی:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  ! میں اپنا کتا چھوڑتا ہوں اور اللہ کا نام لیتا ہوں تو پھر میں شکار پر اس کے ساتھ ایک اور کتا بھی دیکھتا ہوں،جس پر میں نے اللہ کا نام نہیں لیا اور مجھے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ان دونوں میں سے کس نے شکارکو پکڑا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:مت کھاؤ،کیونکہ تم نے اپنے کتے پر اللہ کا نام لیا ہے دوسرے کتے پر اللہ کا نام نہیں لیا۔‘‘

امام  ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ نے حسن بن علی سے روایت کیا ہے:

"عن الحسين بن علي قال:حفظت من رسول الله صلي الله عليه وسلم:(( دع ما يريبك الي ما لا يريبك))هكذا في البخاري تعليقا"[4]

’’حسن بن علی سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   سے یہ الفاظ یادکیے:جو چیز تجھے شک میں ڈال دے،اسے چھوڑ دو اور شک سے  پاک چیز اختیار کرو‘‘

امام نووی ریاض الصالحین میں فرماتے ہیں:

"معناه:اترك ما تشك فيه واعدل الي ما لا تشك فيه"[5]انتهي

’’اس کا معنی یہ ہے کہ جس چیز میں تمھیں شک ہو، اس کو چھوڑ دو اور اس چیز کو اختیار کرلو،جس میں تمھیں شک نہ ہو‘‘

نیز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  سے روایت کیا ہے:

"عن انس رضي الله عنه قال مرالنبي صلي الله عليه وسلم بتمر مسقوطة فقال:(( لو لا ان يكون صدقة لاكلتها)) وقال همام عن ابي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وسلم قال:((اجد تمرة ساقطة علي فراشي))[6] انتهي

’’انس  رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم   کاایک گری ہوئی کھجور کے پاس سے گزر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:اگر(مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ) یہ صدقے کی ہوگی تو میں اسے کھا لیتا۔ہمام نے ابو ہریرۃ  رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  سے،انھوں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم   سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:میں اپنے بستر پر ایک کھجور گری ہوئی پاتا ہوں تو کھانے لگتا ہوں،لیکن پھر یہ سوچ کر چھوڑ دیتا ہوں کہ کہیں وہ صدقہ نہ ہو‘‘

حاصل ان عبارات مذکورہ کا یہ ہے کہ دعوت مسئولہ جائز نہیں،اس لیے کہ مشتبہات سے بچنے کی کمال تاکید آئی ہے،جیسا کہ احادیث مذکورہ دلالت کرتی ہیں اس پر،پس مشتبہات سے بچنا اور دوسروں کو بچانا ہر مسلمان پر فرض اور واجب ہے ،اس واسطے کہ جب آدمی مشتبہات میں واقع ہوا،لا محالہ حرام میں واقع ہوا،جیسا کہ مذکورہ بالاحدیث دلالت کرتی ہے اور انھیں شبہات سے بچنے کا نام زہد وورع ہے،جیسا کہ کہا گیا ہے:

"الورع ترك الحلال خوفا من الوقوع في الشبهات والزهد ترك الشبهات خوفا من الحرام وقد يقال: الزهد الاعراض عن الدنيا"[7] والتفصيل في احياء العلوم"

"شہبے والی چیزوں میں ملوث ہونے کے ڈر سے حلال کو ترک کرنا ورع اور حرام میں واقع ہونے کے خوف سے شبہات کا چھوڑنا زہد کہلاتا ہے۔یہ بھی کہاگیا ہے کہ دنیا سے اعراض واجتناب کرنے کا نام زہد ہے۔

اس کی تفصیل"احیاء العلوم" میں ہے۔

اس زمانے میں کسب سود کا اس کثرت سے درمیان مسلمانوں کے پھیل رہا ہے کہ جس(کی ) انتہانہیں الابعض شخص،ورنہ ہر شخص کسی نہ کسی طرح سے مبتلا ہے۔کیونکر نہ ہو خود رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   فرماتے ہیں:

"(( لياتين علي الناس زمان لا يبقيٰ احد الا اكل الربا وان لم ياكله اصابه من بخاره ويروي من غباره))[8] اخرجه ابو داود وغيره

’’لوگوں پر ضرور ایسا زمانہ آئے گا ،جس میں کوئی شخص سود کھائے بغیر نہیں رہے گا ،جو شخص سود نہیں کھائے گا،اسے بھی اس کا گردوغبار تو پہنچ ہی جائے گا‘‘

ملا علی قاری مرقاۃ شرح مشکاۃ میں"من بخارہ"کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

"والمراد من بخاره اثره وذلك بان يكون موكلا اوشاهدا او كاتبا او ساعيا او اكل من ضيافته او هديته"[9] هكذا في اللمعات للشيخ عبدالحق الدهلوي"

’’ اس کے گرد وغبار سے مراد اس کا اثر ہے۔وہ ایسے کہ وہ کھلانے والا یا گواہی دینے والا یالکھنے والایا کوشش کرنے والا یا اس کی ضیافت سے یا اس کے ہدیے سے کھانے والا ہوگا‘‘

جو فقہ کی کتابوں میں مرقوم ہے۔ کہ جب مال اس کا اکثر حلال کا ہو اور کم حرام کا ہو تو دعوت کھاناجائز ہے،اس کی کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی،اس لیے کہ جب ہم سب مامور ہیں کہ مشتبہاتف سے اجتناب کریں تو خواہ مال اس کا حرام کا زیادہ  ہو یا نہ ہو تو ہرطرح سے مشتبہ رہےگا۔ہاں اس قدر البتہ ہے کہ جب مال حرام کا ا کثر ہوگا تو زیادہ تر مشتبہ رہے گا اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے بدوں قید اس کی مشتبہات سے بچنے کا حکم فرمایا ہے۔کہیں حدیث شریف میں اس کی تصریح نہیں آئی ہے کہ جب مال حرام کا زیادہ نہ ہوتو دعو قبول کرناجائز ہے۔واذ لیس فلیس۔

پس یہ قول مقابل ان نصوص کے متروک ہوا اور اگر مان بھی لیا جائے،تب بھی اجتناب اس دعوت سے افضل ہے اجابت سے اور اسی کا نام تقویٰ ہے،چنانچہ صراحتاً اس باب میں حدیث وارد ہے کہ خود رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   فرماتے ہیں:

"لايبلغ العبد ان يكون من المتقين حتي يدع ما لا باس به حذر ا لمابه باس"(رواه الترمذي عن عطية السعدي الصحابي وقال:حديث حسن"[10]

’’بندہ  تقوے کے(بلند) مقام تک نہیں پہنچتا ،حتی کہ حرج والی چیز سے بچنے کے لیے وہ چیز بھی چھوڑ دے،جس میں  حرج نہیں ہے(لیکن شک ہے کہ شاید منع ہو)‘‘

تیسرے یہ کہ شرک وبدعت کے بعد سود کالینا اور دینا سب گناہوں سے زیادہ تر قبیح اور بد ہے ،حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے ساتھ لڑائی کرنے کا وعدہ فرماتاہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ ایک مقام پر ارشاد فرماتا ہے:

﴿فَإِن لَم تَفعَلوا فَأذَنوا بِحَربٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسولِهِ ...﴿٢٧٩﴾... سورةالبقرة

’’پھر اگر تم نے یہ نہ کیاتو اللہ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم  ) کی طرف سے بڑی جنگ کا اعلان سن لو‘‘

نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ارشادفرماتے ہیں:

"الرِّبَا سَبْعُونَ حُوبًا أَيْسَرُهَا أَنْ يَنْكِحَ الرَّجُلُ أُمَّهُ"[11]

’’سود کے ستر گناہ ہیں،جن میں سے سب سے ہلکا(درجہ) اس قدر ہے،جیسے کوئی شخص اپنی ماں سے نکاح کرے‘‘

نیز ارشاد فرماتے ہیں:

"لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ ، وَشَاهِدَيْهِ"[12]

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   نے سود کھانے والے،سودکھلانے والے،اس پر گواہ بننے والے اور اس کی تحریر لکھنے والے پر لعنت  فرمائی ہے‘‘

غرض کہ سود سے بڑھ کرکوئی گناہ بعدشرک وبدعت کے نہیں معلوم ہوتا اور انواع واقسام کےعذاب اللہ تعالیٰ نےایسے لوگوں کے لیے مقرر رکھا ہے،پس ایسے لوگوں سے محبت  رکھنا ہرگز نہ چاہیے اور دعوت قبول نہ کرنا چاہیے۔

"قال النبي صلي الله عليه وسلم:(( المرء مع من احب))[13]

’’آدمی اس کے ساتھ ہوگا،جس سے اسے محبت ہوگی‘‘

نیز فرمایا ہے:

"مَنْ أَحَبَّ فِي اللَّهِ وَأَبْغَضَ فِي اللَّهِ وَأَعْطَى لِلَّهِ وَمَنَعَ لِلَّهِ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ الإِيمَانَ "[14]

’’ جس شخص نے اللہ کے لیے محبت کی،اللہ کی خاطر بغض  رکھا،اللہ کی رضا کی خاطر عطا کیا اور اللہ کے لیے روک لیا تو اس نے ایمان مکمل کرلیا ‘‘

پس مسلمانوں پر لازم ہے کہ دعوت کھانی ایسے لوگوں کے یہاں سے  پرہیز کریں۔خاص کر عالم دین ہر گز ایسی دعوت قبول نہ کرے۔

"لان ذلك شين الدين وفتح باب المعصية علي المسلمين"

’’اس لیے کہ یہ دین میں ایک عیب ہے اور اس سے مسلمانوں پر معصیت ونافرمانی کا دروازہ کھل جاتا ہے‘‘

بلکہ عالم کو چاہیے کہ اس شخص کو ایسے فعل سے روکے اور اگر مان جائے تو بہتر،ورنہ اس سے اجتناب اور کنارہ کشی کرے اور باہم کھانا اور پینا چھوڑ دے:

"عن ابن مسعود رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " إن أول ما دخل النقص في بني إسرائيل أنه كان الرجل يلقى الرجل فيقول : يا هذا اتق الله ودع ما تصنع فإنه لا يحل لك ثم يلقاه من الغد وهو على حاله فلا يمنعه ذلك من أن يكون أكيله وشريبه وقعيده فلما فعلوا ذلك ضرب الله قلوب بعضهم ببعض " ثم قال : ﴿لُعِنَ الَّذينَ كَفَروا مِن بَنى إِسر‌ٰءيلَ عَلىٰ لِسانِ داوۥدَ وَعيسَى ابنِ مَريَمَ ذ‌ٰلِكَ بِما عَصَوا وَكانوا يَعتَدونَ ﴿٧٨ كانوا لا يَتَناهَونَ عَن مُنكَرٍ فَعَلوهُ لَبِئسَ ما كانوا يَفعَلونَ ﴿٧٩ تَرىٰ كَثيرًا مِنهُم يَتَوَلَّونَ الَّذينَ كَفَروا لَبِئسَ ما قَدَّمَت لَهُم أَنفُسُهُم أَن سَخِطَ اللَّهُ عَلَيهِم وَفِى العَذابِ هُم خـٰلِدونَ ﴿٨٠ وَلَو كانوا يُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَالنَّبِىِّ وَما أُنزِلَ إِلَيهِ مَا اتَّخَذوهُم أَولِياءَ وَلـٰكِنَّ كَثيرًا مِنهُم فـٰسِقونَ ﴿٨١ [ المائدة - ] ثم قال : " كلا والله لتأمرن بالمعروف ولتنهون عن المنكر ولتأخذن على يد الظالم ولتأطرنه على الحق أطرا ولتقصرنه على الحق قصرا أو ليضرين الله بقلوب بعضكم على بعض ثم ليلعنكم كما لعنهم " [15]رواه أبو داود والترمذي وقال : حديث حسن .

’’عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ تعالیٰ  عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:پہلا پہلا نقص اور عیب جو بنی اسرائیل میں داخل ہوا،یہ تھا کہ ان میں سے کوئی دوسرے سے ملتا تو اسے کہتا تھا:ارے! اللہ سے ڈرو اور جو کررہے ہو باز آجاؤ،یہ تمہارے لیے حلال نہیں۔پھر اگلے دن ملتا اور وہ اپنی حالت پر ہی ہوتا تو یہ اس کے لیے اس کا ہم نوالہ،ہم پیالہ اور ہم مجلس ہونے میں کوئی رکاوٹ نہ ہوتی تھی۔جب ان کایہ حال ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ایک دوسرے پر دے مارا،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے یہ آیات پڑھیں:

﴿لُعِنَ الَّذينَ كَفَروا مِن بَنى إِسر‌ٰءيلَ عَلىٰ لِسانِ داوۥدَ وَعيسَى ابنِ مَريَمَ ذ‌ٰلِكَ بِما عَصَوا وَكانوا يَعتَدونَ ﴿٧٨ كانوا لا يَتَناهَونَ عَن مُنكَرٍ فَعَلوهُ لَبِئسَ ما كانوا يَفعَلونَ ﴿٧٩ تَرىٰ كَثيرًا مِنهُم يَتَوَلَّونَ الَّذينَ كَفَروا لَبِئسَ ما قَدَّمَت لَهُم أَنفُسُهُم أَن سَخِطَ اللَّهُ عَلَيهِم وَفِى العَذابِ هُم خـٰلِدونَ ﴿٨٠ وَلَو كانوا يُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَالنَّبِىِّ وَما أُنزِلَ إِلَيهِ مَا اتَّخَذوهُم أَولِياءَ وَلـٰكِنَّ كَثيرًا مِنهُم فـٰسِقونَ ﴿٨١﴾... سورة المائدة

’’وہ لوگ جنھوں نے بنی اسرائیل میں سے کفر کیا ان پر داود اور مسیح ابن مریم کی زبان پر لعنت کی گئی۔یہ اس لیے کہ انھوں نے نافرمانی کی اور وہ حد سے گزرتے تھے۔وہ ایک دوسرے کو کسی برائی سے،جو انھوں نے کی ہوتی،روکتے نہ تھے،بے شک برا ہے،جو وہ کیاکرتے تھے۔توان میں سے بہت سوں کو دیکھے گا،وہ ان لوگوں سے دوستی رکھتے  ہیں،جنھوں نے کفر کیا۔یقیناً بُرا ہے،جو ان کے نفسوں نے ان کے لیے آگے بھیجا کہ اللہ ان پر غصے ہوگیا اور عذاب ہی میں وہ ہمیشہ  رہنے والے ہیں۔اور اگر وہ اللہ اور نبیؐ پر اور اس پر ایمان رکھتے ہوتے،جو اس کی طرف نازل کیاگیا ہے تو انھیں دوست نہ بناتے اور لیکن ان میں سے بہت سے نافرمان ہیں۔"پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:خبردار!اللہ کی قسم! تمھیں بالضرور نیکی کا حکم کرناہوگا،برائی سے روکنا ہوگا،ظالم کا ہاتھ پکڑنا ہوگا اور اسے حق پر لوٹانا اور حق کا پابند کرنا ہوگا یا  پھر ضرور اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کو ایک دوسرے پر دے مارے گا،پھر تم پر ویسے ہی لعنت کرے گا،جس طرح اس نے ان پر لعنت کی‘‘

اس حدیث کو ابوداود اور ترمذی نے  روایت کیا اور یہ لفظ ابو داود کا ہے اور لفظ ترمذی کے یہ ہیں:

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:

"لما وقعت بنو اسرائيل في المعاصي نهتهم علماؤهم فلم ينتهوا فجالسوهم في مجالسهم وواكلوهم وشاربوهم فضرب الله قلوب بعضهم ببعض, ولعنهم على لسان داود وعيسى ابن مريم ذلك بما عصوا وكانوا يعتدون"

فجلس رسول الله صلى الله عليه وسلم وكان متكئا فقال:
"لا والذي نفسي بيده حتى تأطروهم على الحق أطرا[16]".رواه الترمذي وقال: حديث حسن.

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:’’جب بنو اسرائیل نافرمانیوں میں مبتلا ہوئے تو ان کو ان کے علماء نے منع کیا،مگر وہ باز نہ آئے تو پھر وہ(علماء) خود بھی ان کے ہم مجلس،ہم نوالہ اور ہم پیالہ بن گئے۔پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ایک دوسرے کے اوپر دے مارا اور داود علیہ السلام اور عیسی ابن مریم علیہ السلام   کی زبان پر لعنت کی،اس وجہ سے کہ انھوں نے نافرمانی کی اور وہ حد سے تجاوز کرنے والے تھے۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  یہ ارشاد فرماتے وقت تک ٹیک لگائے ہوئے تھے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم   سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور فرمایا:نہیں،قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!(تم بھی ان کی طرح ہونے سے نہیں بچ سکو گے)حتیٰ کہ تم ان کو حق پر لوٹاؤ اور ان کو اس کاپابند کرو‘‘

(حرره الراجي الي رحمة ربه الغني ابو المكارم محمد علي صانه الله عن شر كل غبي وغوي)


[1] المعجم الکبیر (۱۸/ ۱۶۸) شعب الإیمان (۵/ ۶۸) مشکاۃ المصابیح (۲/ ۲۳۲) اس کی سند سخت ضعیف ہے۔ دیکھیں: السلسلۃ الضعیفۃ، رقم الحدیث (۵۲۲۹)

[2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۵۲) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۵۹۹)

[3] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۹۴۹) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۹۲۹)

[4] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۵۱۸)

[5] ریاض الصالحین (ص: ۶۲)

[6] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۰۵۵) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۰۷۰)

[7] إحیاء علوم الدین (۴/ ۲۱۶)

[8] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۳۳۳۱) سنن النسائي، رقم الحدیث (۴۴۵۵) اس کی سند میں انقطاع ہے۔

[9]مرقاۃ المفاتیح (۵/ ۱۹۲۲)              

[10]     سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۴۵۱) سنن ابن ماجه، رقم الحدیث (۴۲۱۵) اس کی سند میں عبداﷲ بن یزید ضعیف ہے۔ دیکھیں: ضعیف الجامع، رقم الحدیث (۶۳۲۰)

[11]           سنن ابن ماجه، رقم الحدیث (۲۲۷۴)

[12]  صحیح مسلم، رقم الحدیث (۴۱۷۷)

[13] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۵۸۱۶) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۶۴۰)

[14]     سنن أبي داؤد، رقم الحدیث (۴۶۸۱)

[15]   سنن أبي داؤد، رقم الحدیث (۴۳۳۶) سنن الترمذي، رقم الحدیث (۳۰۴۸) سنن ابن ماجه، رقم الحدیث (۴۰۰۶) اس کی سند میں انقطاع ہے، لہٰذا یہ حدیث ضعیف ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیں: السلسلة الضعیفة، رقم الحدیث (۱۱۰۵)

[16] سنن ترمذي رقم الحدیث(3047) اس حدیث کی سند بھی ضعیف ہے،کیونکہ اس میں انقطاع ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

كتاب الاطعمة،صفحہ:673

محدث فتویٰ

تبصرے