سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(438) جلالہ کا اطلاق کس جانور پر ہوتا ہے؟

  • 23203
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 3168

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اقوام اہیرجن کو گوالا بھی کہتے ہیں پیشہ دودھ و دہی فروشی کا کرتے ہیں اور قوم ہنودہوتے ہیں یہ لوگ اپنے جانور گائے بھینس کو صرف چارہ گھانس اور تل کا فضلہ یعنی کھلی و بھوسہ کھلاتے تھے اور دودھ بھی عمدہ ہو تا تھا بعد جس قدر سلسلہ گرانی کا شروع ہوا تب سے گھوڑوں کی لید مسل کچڑ کے مندل کر کے بمقدار کثیر ٹوکروں میں بھر کر اس پر کسی قدر ڈال کر کھلاتے ہیں اور اسی حالت میں ان کا دودھ نچوڑتے ہیں چونکہ یہاں بکثرت گھوڑے ہیں اس وجہ سے بکثرت مل بھی جاتی ہے اور گل مہواکو سڑا کر اس کی شراب اتارتے ہیں اس کا فضلہ جس میں عفونت ہوتی ہے وہ بھی بھینسوں کو کھلاتے ہیں اب دریافت طلب یہ ہے کہ وہ جانور جلالہ کے حکم میں ہوکر اس کے دودھ کا کھانا پینا ناجائز ہو گایا جائز ؟تحریرفرمائیے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر جانور مذکور کے دودھ وغیرہ میں نجس چارہ کی بویارنگ یا مزہ باقی ہوتو استعمال سے پر ہیز کریں جانور مذکور پر ایسی حالت میں جلالہ کا حکم جاری ہوگا اور اگر بویارنگ یا مزہ باقی ہوتو استعمال میں لائیں (جانور مذکورپر ایسی حالت میں جلالہ کا حکم جاری نہ ہوگا) حنفی مذہب کی معتبر کتابوں کایہی خلاصہ ہے لغت کی معتبر کتاب "لسان العرب" میں ہے

"ابل جلالة تاكل العزرة وقد نهي عن لحومها والبانها والجلالة البقر التي تتبع النجاسات ونهي النبي صلي الله عليه وسلم عن اكل الجلالة وركوبها والجلالة من الحيوان التي تاكل الجلة والعذرة والجلة البعر(الي قوله) فاما اكل الجلالة فحلال ان لم يظهر النتن في لحمها"[1]

("ابل جلاله" اس اونٹ کو کہتے ہیں جو گندگی کھاتا ہے چنانچہ ایسے اونٹوں کے گوشت کھانے اور دودھ پینے سے منع کیا گیا اور بقر جلالہ"وہ گائے ہے جو نجا ستوں کے درپے ہوتی ہے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم   نے جلالہ (جانور کوئی بھی ہو) کھانے اور اس پر سواری کرنے سے منع فرمایا ہے حیوانات میں سے جلالہ وہ ہے جو مینگنیاں اور پاخانہ کھاتا ہے۔"جلالہ "مینگی (اورلید) کو کہتے ہیں پس جلالہ جانور کو کھانا حلال ہے بشرطیکہ اس کے گوشت میں گندگی کے اثرات نہ پائے جائیں)

ایسا ہی عون المعبود حاشیہ سنن ابی داود (۳/ ۴۱۲) میں ہے اور رد المحتار حاشیہ در مختار میں ہے:

"وفي التجنيس اذا كان علفها نجاسة تجس الدجاجة ثلاثة ايام والشاة اربعة والابل والبقر عشرة وهو المختار علي الظاهر وقال السرخسي:الاصح عدم التقدير وتحبس حتي تزول الرائحة المنتنة وفي الملتقيٰ المكروه الجلالة التي اذا قربت وجدمنها رائحة فلا توكل ولا يشرب لبنها......الخ[2]

(تجنیس میں ہے کہ جب اس کا چارہ اور کھانا نجاست وگندگی بن جائے تو ان کو بند کردیا جائے چنانچہ مرغی کو تین دن کے لیے بکری کو چاردن اور اونٹ و گائے کو دس دن کے لیے بند کردیا جائے بہ ظاہر یہی مختار مذہب ہے سرخسی رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا ہے کہ صحیح مذہب یہ ہے کہ ان جانوروں کے لیے الگ الگ مدت کا تعین نہ ہو بلکہ ہر ایسے جانور کو اس وقت تک بند رکھا جائے جب تک اس کی بدبو وغیرہ دورنہ ہوجائے "متلقی " میں ہے کہ مکروہ جلالہ وہ جانور ہے کہ جب اسے قریب کیا جائے تو اس سے بدبو آئے ۔لہٰذا ایسے جانور کا گوشت کھایا جائے نہ اس کا دودھ پیا جائے)


[1] ۔لسان العرب (۱/ ۶۶۴)

[2] رد المحتار (۶/ ۳۰۶)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

كتاب الاطعمة،صفحہ:669

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ