سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(437) شکار میں اشراکت داری اور چھوٹے دریاؤں اور ندیوں کا شکار

  • 23202
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 611

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

1۔شکار کرنا عام ازیں کہ دریائی ہو یا صحرائی جیسا کہ فی زماننا رائج ہے کہ چند اشخاص مل کر باہم مشترک طور پر شکار کیا کرتے ہیں اور اس میں بقدر حصہ رسدی و مساوی تقسیم کر لیتے ہیں آیا صورت متذکر ہ صدر شرعاً جائز ہے یا نہیں ؟

قوله الحق سبحانه تعالى: ﴿صَيْدُ الْبَحْرِ﴾و قوله الحق سبحانه تعالى: ﴿صَيْدُ الْبَرِّ﴾

کا اطلاق اس دیار کے چھوٹے چھوٹے دریاؤں پر صحیح ہے یا نہیں؟ نیزان ندیوں میں شرعاً شکار کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت متذکرہ بالا شرعاً جائز ہے مثل غنائم کے۔"منتقی الاخبار"میں ہے۔

"باب التسوية بين القوي والضعيف ومن قاتل ومن لم يقاتل عن ابن عباس رضي الله تعاليٰ عنه قال:قال رسول الله صلي الله عليه وسلم يوم بدر......الحديث وفيه فقسمها رسول الله صلي الله عليه وسلم بالسواء"[1](رواہ ابو داؤد الیٰ اجر الباب)

(طاقتور اور کمزور لڑنے والے اور نہ لڑنے والے کے درمیان برابری کرنے کا باب سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ  عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے بدر کے دن فرمایا:اس میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے اس (مال غنیمت )کو ان کے درمیان برابر تقسیم کیا)

2۔بحر ضد ہے برکا بحر کا اطلاق ہر آب کثیر پر ہو تا ہے میٹھا ہو یا کھاری ،بستہ ہو یا جاری ،ندی ہو یا تالاب یا پکھرا پکھری ۔ پس بحر کا اطلاق اس دیار کے بلکہ ہر ایک دیار کے چھوٹے چھوٹے دریاؤں پر صحیح ہے اور بحکم آیت کریمہ:

﴿أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ﴾

ان ندیوں میں بلکہ تمام دنیا کی ندیوں میں شرعاً شکار کیا جا سکتا ہے "مختار الصحاح"میں ہے۔ "البحر ضد البراھ[2](بحربر کی ضد ہے) 

"لساب العرب" میں ہے:"البحر الماء الكثير ملحا كان او عذبا وهو خلاف البر"[3]

(بحر بہت زیادہ پانی پر مشتمل ہوتا ہے وہ کھارا ہو یا میٹھا اور وہ برکی ضد ہے)

خازن میں زیر آیت کریمہ﴿أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ﴾

"المراد به جميع المياه العذبة والملحة بحرا كان او نهرا او غديرا"[4]

(اس (بحر )سے مراد تمام پانی ہیں میٹھے ہوں یا کھارے بحر کے ہوں یا نہر کے یا غدیر (جوہڑ ) کے )"فتح البیان"میں ہے

"المراد بالبحر هنا كل ما يوجد فيه صيد بحري وان كان نهرا او غديرا فالمراد بالبحر جميع المياه العذبة والمائحة"[5]

(یہاں بحر سے مراد ہر وہ (پانی) ہے جس میں بحری شکار پایا جائے اگر چہ وہ نہر یا جوہڑ ہو پس بحر سے مراد تمام پانی ہیں وہ کھارے ہوں یا میٹھے)

تفسیر ابو السعود میں ہے۔

"(صيد البحر )اي ما يصاد في المياه كلها بحرا كان او نهرا او غديرا"[6]

(صید البحر) یعنی جو تمام پانیوں سے شکار کیا جا تا ہے وہ پانی بحر میں ہو یا نہر میں یا جوہڑ میں)


[1] ۔سنن ابي داؤد رقم الحدیث (2739)نیل الاوطار (72/8)

[2] مختار الصحاح اللراوي (ص 73)

[3] ۔لسان العرب (41/4)

[4] ۔تفسیر البخاري(95/2)

[5] ۔فتح البیان (55/4)

[6] ۔تفسیر ابی السعود(۳/ ۸۱)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصید والذبائح،صفحہ:667

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ