سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(431) ہبہ اور ابراء

  • 23196
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1624

سوال

(431) ہبہ اور ابراء

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

1۔ ہبہ اور ابراء میں کچھ فرق ہے یا دونوں ایک چیز ہے؟

2۔معافی دین از قسم ہبہ ہے یا مجردابراء واسقاط حق ہے؟

3۔درصورت فرق ہونے درمیان ہبہ اور ابراء کے اگر ہبہ دین کا لفظ میت کی نسبت استعمال کیا جائے یعنی یوں کہا جائے کہ میں نے یا فلاں شخص نے اپنا دین میت کو ہبہ کردیا تو اس صورت میں ہبہ کے حقیقی معنی مرادہوں گےیا اس ہبہ سے ابراء واسقاط حق مراد ہو گا؟

ان سوالوں کا جواب مطابق فقہ حنفی کے ارقام فرمایا جائے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1۔2۔ہبہ اور ابراء میں اصلی معنی کے اعتبار سے فرق ہے ہبہ کے اصلی معنی ہیں تملیک اور ابراء کے اصلی معنی ہیں اسقاط حق اسی وجہ سے دونوں کے بعض بعض شرائط اور احکام بھی مختلف ہیں۔

1۔ہبہ میں قبول شرط ہے ابراء میں نہیں ۔

2۔ہبہ میں حق رجوع حاصل ہے بشرطیکہ کوئی مانع موانع رجوع میں سے موجود نہ ہوا ور ابراء میں حق رجوع اصلاً حاصل نہیں حموی شرح اشباہ ونظائر (ص269چھاپہ مصطفائی دہلی) میں ہے۔"الابراء اسقاط والھیة تملیک " اھ (ابراء اسقاط (حق) ہے اور ہبہ تملیک )"اشباہ ونظائر "صفحہ مذکورمیں ہے۔

"ماافترق فيه الهبة والابراء يشترط لها القبول بخلافه وله الرجوع فيها عند عدم المانع بخلافه مطلقا"

(ہبہ اور ابراء میں فرق یہ ہے کہ ہبہ میں قبول شرط ہے برخلاف ابراء کے ہبہ میں کوئی مانع نہ ہونے کی صورت میں حق رجوع حاصل ہے جب کہ ابراء میں اصلاً یہ حق حاصل نہیں ہے)

لیکن کبھی کبھی ابراء پر بھی ہبہ کا اطلاق مجازاً کیا جا تا ہے چنانچہ دین کے معاف کردینے کو کہ یہ ابراء واسقاط حق ہے ہبہ دین کہا جا تا ہے اور دونوں سے ایک ہی مطلب سمجھا جاتا ہے دیکھئے معافی دین مہر کے مقدمہ میں اگر ایک گواہ ابراء دین کا لفظ کہے اور دوسرا گواہ ہبہ دین کا لفظ تو دونوں کے بیان گو لفظاً مختلف ہیں مگر معناً مختلف نہیں مطلب دونوں کا ایک ہی ہے ابراء دین کا مطلب دین کا مدیون کے ذمہ سے ساقط کردینا ہے اور ہبہ دین کا مطلب بھی یہی ہے اشباہ و نظائرمیں ہے:

"هبة الدين كالابراء منه...لخ

(ہبہ دین اس سے ابراء کی مانند ہےالخ) حموی صفحہ مذکورہ میں"جامع الفصولین"سے منقول ہے۔

"ادعي الزوج انها وهبتني المهر وبرهن فشهد احدهما انها ابراته والآخر انها وهبته تقبل للموافقة لان حكم هبة الدين سقوطه وكذا حكم البراءة"

(خاوند نے یہ دعوی کیا کہ اس (میری بیوی) نے اپنا مہر مجھے ہبہ کردیا ہے اور اس دعوے کی دلیل بھی پیش کردی ایک گواہ نے یہ گواہی دی کہ اس کی بیوی نے اس سے ابراء کردیا تھا اور دوسرے نے گواہی دی کہ اس نے اس کو ہبہ کردیا تھا تو موافقت کی وجہ سے اس گواہی کو قبول کیا جائے گا کیوں کہ قرض کا ہبہ اس کا ساقط کرنا ہے اور ابراء کا بھی یہی حکم ہو گا)

3۔اس صورت میں ہبہ کے حقیقی معنی (تملیک ) مراد نہ ہوں گے اور نہ مراد ہو سکتے ہیں کیونکہ میت میں کسی چیز کے مالک بننے کی صلاحیت ہی نہیں بلکہ جن چیزوں کا وہ بحالت حیات مالک تھا اب بعد ممات ان چیزوں کا بھی مالک نہیں رہا بلکہ وہ چیزیں اس کے ملک سے نکل کر دوسروں کے ملک میں چلی گئیں ہاں اس صورت میں ہبہ سے مجازاًابراء واسقاط حق مرادہو گا کیونکہ میت میں اس بات کی صلاحیت ضرورہے کہ اس پر کسی شخص کا کوئی حق آتا ہو اور وہ شخص اس حق میت کے ذمہ سے ساقط کردے تووہ حق میت کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گا فتاوی عالمگیری (446/1مطبوعہ ہو گلی ) "فصل عاشر فی ھیہ المھر" میں ہے۔

"امراة الميت اذا وهبت المهر من الميت جاز كذا في السراجية "

(میت کی بیوی اگر مہر ہبہ کردے تو یہ جائز ہو گا سراجیہ میں ایسے ہی بیان ہوا ہے)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب البیوع،صفحہ:660

محدث فتویٰ

تبصرے