السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ زید باحیات ہے اس کی ایک لڑکی اور ایک لڑکا ہے۔زید اپنی جائیداد منقولہ وغیر منقولہ کو اپنے لڑکے کے یا پوتے کے نام ہبہ کرنے کاارادہ رکھتا ہے اور اس حیلے سے اپنے بعد وفات لڑکی کو ترکہ سے محروم رکھنا چاہتاہے۔آیا یہ ہبہ شرعاً جائز ہے یا نہیں؟اس ہبہ ہوجانے کے بعد جب کہ زید انتقال کرے تو اس کی لڑکی شرعاً ترکہ لے سکتی ہے یا نہیں؟ہبہ کے جواز یا عدم جواز کو اور نیز شرعاً ترکہ پانے کو مدلل بقرآن وحدیث تحریر فرمائیے۔بینوا بالکتاب توجروا یوم الحساب۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ ہبہ شرعاً جائز ہے،اس لیے کہ یہ ہبہ لڑکی کے اضرار کو مستلزم ہے اور اضرار شرعا ناجائزہے۔قال العلامة الذیلعی فی نصب الرایة(363/2)
"روي الحاكم في المستدرك في البيوع من حديث عثمان بن محمد بن عثمان بن ربيعة بن ابي عبدالرحمان حدثني عبدالعزيز بن محمد الدراوردي عن عمرو بن يحيٰ المازني عن ابيه عن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه ان النبي صلي الله عليه وسلم قال:لاضرر ولا ضرار من ضر ضره الله ومن شق شق الله عليه))وقال:صحيح الاسناد ولم يخرجاه وقال العلامة :وروي هذا الحديث عن عبادة بن الصامت وابن عباس رضي الله عنه وابي لبابة وثعلبة بن مالك وجابر بن عبدالله رضي الله عنه وعائشة رضي الله تعاليٰ عنها ايضا انتهي وهذه الاحاديث وان كان في طرق بعضها او اكثر ها كلام لكنها بتعدد طرقها تتقوي"
"امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مستدرک کی کتاب البیوع میں عثمان بن محمد بن عثمان بن ربیعہ بن ابوعبدالرحمٰن کے واسطے سے روایت بیان کی ہے،انھوں نے کہا کہ مجھے عبدالعزیز بن محمد دراوردی نے عمرو بن یحییٰ مازنی سے،انھوں نے اپنے باپ سےاور انھوں نے ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’نہ خود نقصان اُٹھاؤ نہ کسی کو نقصان پہنچاؤ،جو کسی کو تکلیف دے گا،اللہ اس کو تکلیف دے گا اور جو کسی پر سختی کرے گا،اللہ اس پر سختی کرے گا"پھر انھوں نے کہا ہے کہ اگرچہ اس کو بخاری ومسلم نے روایت نہیں کیا،مگر یہ صحیح الاسناد ہے۔۔۔الخ علامہ(زیلعی) نے کہا ہے:یہ حدیث عبادہ بن صامت،ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابو لبابہ،ثعلبہ بن مالک،جابر بن عبداللہ اور عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی مروی ہے،انتھی ۔ان احادیث کے بعض یا اکثر طرق میں کلام ہونے کے باوجودیہ تعدد طرق کی وجہ سے قوی ہوجاتی ہے‘‘
یہ ہبہ لڑکی کے عقوق کو مؤدی ہے اور عقوق گناہ کبیرہ ناجائز ہے۔
"قال في المشكاة(ص:90) عن عبدالله بن عمرو قال:قال رسول الله صلي الله عليه وسلم ((الكبائر الاشراك بالله وعقوق الوالدين))"الحديث
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’بڑے گناہ یہ ہیں:اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور ماں باپ کی نافرمانی کرنا‘‘
نیز یہ ہبہ لڑکی کو میراث سے محروم کرنے کو متضمن ہے اور عورتوں کو میراث سے محروم کرناجاہلی طریقہ ہے،جس کو اسلام نے باطل وناجائز قرار دیا ہے۔
"قال في الجلالين((ص:٨٦) نزل ردا لما كان عليه الجاهلية من عدم توريث النساء والصغائر:
﴿لِلرِّجالِ نَصيبٌ مِمّا تَرَكَ الوٰلِدانِ وَالأَقرَبونَ وَلِلنِّساءِ نَصيبٌ مِمّا تَرَكَ الوٰلِدانِ وَالأَقرَبونَ مِمّا قَلَّ مِنهُ أَو كَثُرَ نَصيبًا مَفروضًا ﴿٧﴾... سورة النساء
’’یہ آیت جاہلیت کے اس رواج کی تردید کے لیے نازل ہوئی کہ وہ عورتوں اورچھوٹے بچوں کو وراثت میں سے حصہ نہیں دیا کرتے تھے تو یہ آیت نازل ہوئی:مردوں کے لیے حصہ ہے اس چیز سے ،جو ماں باپ چھوڑ جائیں اور قرابت دار اور عورتوں کے لیے حصہ ہے اس سے جو قرابت دار اور ماں باپ چھوڑ جائیں،خواہ کم ہو یا زیادہ ہر ایک حصہ مقرر ہے۔‘‘
جب یہ ہبہ شرعاً جائز ہے تو شرعاً باطل وکالعدم ہے،کیوں کہ حدیث ہے:
"مَنْ عَمِلَ عَمَلاً ليسَ عليه أمرُنا هذا فهو رَدٌّ "(رواه مسلم:٧٧/٢)
’’یعنی جو شخص کوئی ایسا کام کرے جو ہمارے حکم (قانون ) کے خلاف ہو تو وہ کام مردود اور باطل ہے۔‘‘
جب یہ شرط باطل وکالعدم ہوتو لڑکی بعد انتقال زید اس کے مال سے شرعاً ترکہ لے سکتی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب