السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید کا عمرودین دار ہ۔جب زید اپنا روپیہ عمرو سے طلب کرتا ہے،عمرو کہتا ہے کہ تم نے ہم کو معاف کردیا ہے۔اور زید کہتا ہے کہ ہم نے معاف نہیں کیا ہے۔کوئی دوسرا شخص معاف کرنے یا نہ کرنے کا گواہ نہیں ہے۔اس حالت میں عنداللہ وعند الرسول وعندالناس زید اپنا روپیہ عمرو سے لینے کامستحق ہے یا نہیں اور عمرو زید کادین دار ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قانون شریعت اسلام یہ ہے کہ جب مدعا علیہ مدعی کے دعوے کا انکار کرے تو مدعی اگر اپنا دعویٰ ثابت کرنا چاہے تو اس پر لازم ہے کہ گواہوں سے ثابت کرے اور جب گواہوں سے ثابت نہ کرسکے،اس سبب سے کہ گواہ موجود نہیں ہیں اور مدعا علیہ سے انکار دعویٰ پر حلف چاہے تو مدعا علیہ پر حلف لازم ہے تو اگر مدعا علیہ انکار دعویٰ میں سچا ہے تو حلف لے لے اور جب حلف لے لے گا تو مدعی کا دعویٰ ساقط ہوجائے گا اور اگر حلف نہ لے گا تو دعویٰ ساقط نہ ہوگا۔
صورت مسئولہ میں جب عمرو کو تسلیم ہے کہ وہ زید کا دین دار ہے تو عمرو کا بروقت تقاضا کرنے زید کے یہ کہنا کہ تم نے ہم کو معاف کردیا ہے،یہ عمرو کا زید پر ایک دعویٰ ہے اور زید کا یہ کہنا کہ ہم نے معاف نہیں کیا ہے،اس کے دعویٰ کاانکار ہے اور جب اس صورت میں عمرو کا کوئی گواہ نہیں ہے۔اگر زید سے انکار دعویٰ پر حلف چاہے اور زید حلف لے لے یعنی قسم کھا جائے کہ میں نے اپنا دین جو عمرو پر ہے،معاف نہیں کیا ہے تو عمرو کا دعویٰ کہ زید نے اپنا دین معاف کردیا ہے،ساقط ہوجائے گا اور عمرو زید کا دین دار اور زید اپنا روپیہ عمرو سے پانے کامستحق ہوگا اور در صورت حلف نہ لینے زید کے عمرو کادعویٰ ساقط نہ ہوگا۔
عن علقمة بن وائل بن حجر، عن أبيه قال: جاء رجل من حضرموت ورجل من كِنْدة إلى النبي، فقال الحضرمي: يا رسول الله إن هذا قد غلبني على أرض لي كانت لأبي، فقال الكندي: هي أرض في يدي أزرعها، ليس له فيها حق، فقال النبي صلى الله عليه وسلم للحضرمي: "ألك بينة"؟ قال: لا قال: "فلك يمينه" قال: يا رسول الله إن الرجل فاجرٌ لا يبالي على ما يحلف عليه، قال: "ليس لك منه إلا ذلك" فانطلق ليحلف له، فلما أدبر قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "أمَا لِئَن حلف على ماله ليأكله ظلما ليَلْقَيَنَّ الله وهو عنه مُعْرِض"[1]
’’امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے کہ وائل بن حجر رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ حضرموت(قبیلہ) کندہ کے دو آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو حضرمی نے کہا:اےاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ شخص میرے باپ کی زمین پر قابض ہوگیاہے۔کندی نے کہا:یہ میری زمین ہے اور میرے قبضے میں ہے،میں ہی اسے کاشت کرتا ہوں،اس کا اس میں کوئی حق نہیں ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرمی سے کہا:کیا تیرے پاس کوئی دلیل(وگواہی) ہے؟اس نے کہا:نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تو تمھیں اس کی قسم قبول کرنی ہوگی۔"اس نے کہا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !یہ فاجر آدمی ہے،اسے کوئی پروا نہیں کہ کیا قسم کھا رہا ہے،یہ کسی چیز سے پرہیز نہیں کرتا،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تمھارے لیے اس کی طرف سے بس یہی ہے (کہ وہ قسم کھائے)۔"چنانچہ وہ قسم کھانے کے لیے تیار ہوگیا۔جب اس نے پشت پھیری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر اس نے قسم کھالی کہ ظلم سے اس کا مال کھالے تو یہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اس سے رخ پھیرے ہوئے ہوگا۔‘‘
"عن الأشعث قال: كان بيني وبين رجل من اليهود أرض فجحدني، فقدمته إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال لي النبي صلى الله عليه وسلم: ((ألك بينة؟)). قلت: لا. قال لليهودي: ((احلف)). قلت: يارسول الله إذاً يحلف ويذهب بمالي. فأنزل الله: {إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلاً ..} إلى آخر الآية(190)[2]
’’ائمہ ستہ نے اپنی کتابوں میں اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک اور روایت بیان کی ہے،انھوں نےفرمایا:"زمین کا ایک ٹکڑا میری اور یہودی کی مشترکہ ملکیت تھا۔اس نے میرا حصہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔میں نے اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا:"کیا تیرے پاس کوئی گواہ ہے؟"میں نے کہا:نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی سے کہا:’’قسم کھا۔‘‘میں نے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! وہ تو(جھوٹی قسم کھا کر) میرا مال لے لے گا؟تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
﴿إِنَّ الَّذينَ يَشتَرونَ بِعَهدِ اللَّهِ وَأَيمـٰنِهِم ثَمَنًا قَليلًا...﴿٧٧﴾... سورة البقرة
’’بے شک جولوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے عوض تھوڑی قیمت لیتے ہیں‘‘
"عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَوْ يُعْطَى النَّاسُ بِدَعْوَاهُمْ لَادَّعَى رِجَالٌ أَمْوَالَ قَوْمٍ وَدِمَاءَهُمْ، لَكِنَّ الْبَيِّنَةَ عَلَى الْمُدَّعِي، وَالْيَمِينَ عَلَى مَنْ أَنْكَرَ ."[3](تخریج الھدایة للزیلعی:216/2)
’’امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے ا پنی سنن میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اگر لوگوں کو محض ان کے دعوے کی بنا پر چیز دے دی جائے تو لوگ دوسرے افراد کے مالوں اور خونوں پہ دعوے کردیں،لیکن گواہی پیش کرنا مدعی کا فرض ہے اور اس کا انکار کرنے والے(مدعا علیہ) کے ذمے قسم کھانا ہے‘‘
"قد اخرج البيهقي الحديث باسناد صحيح كما قال الحافظ بلفظ:البينة علي المدعي واليمين علي من انكر"[4](نيل الاوطار:574/8)
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے،جس طرح حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ان الفاظ میں اس کوبیان کیا ہے کہ گواہی پیش کرنا مدعی کا فرض ہے اور اس کا انکار کرنے والے(مدعا علیہ) کے ذمے قسم کھانا ہے۔
" وجاء في رواية البيهقي وغيره باسناد حسن اوصحيح عن صحي صعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَوْ يُعْطَى النَّاسُ بِدَعْوَاهُمْ لَادَّعَى رِجَالٌ أَمْوَالَ قَوْمٍ وَدِمَاءَهُمْ، لَكِنَّ الْبَيِّنَةَ عَلَى الْمُدَّعِي، وَالْيَمِينَ عَلَى مَنْ أَنْكَرَ ."[5](تخریج الھدایة للزیلعی:216/2)
’’امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے ا پنی سنن میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اگر لوگوں کو محض ان کے دعوے کی بنا پر چیز دے دی جائے تو لوگ دوسرے افراد کے مالوں اور خونوں پہ دعوے کردیں،لیکن گواہی پیش کرنا مدعی کا فرض ہے اور اس کا انکار کرنے والے(مدعا علیہ) کے ذمے قسم کھانا ہے۔‘‘
[1] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث (139) یہ تمام عبارت"نصب الرایة" سے منقول ہے۔
[2] ۔صحیح بخاري رقم الحدیث(2285) صحیح مسلم،رقم الحدیث(138) سنن ابي داؤد،رقم الحدیث(3243) سنن الترمذي رقم الحدیث (1269)
[3] ۔سنن البیہقی (252/10)
[4] ۔سنن البیہقی الکبریٰ (252/10)
[5] ۔سنن البیہقی (252/10)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب