السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید نے اپنی زمین،جس کے قطعات متعددہ ہیں، بعض عمرو کی زمین سے متصل ہیں اور بعض بکر وغیرہ کی زمین سے،خالد کے ہاتھ فروخت کردی،جو قوم کا حجام دوسرے محلہ کا باشندہ ہے۔اب عمرو نے بکر وغیرہ دیگر شرکائے شفعہ کی اجازت اوررضا مندی سے دعویٰ حق شفعہ کیا،بلکہ بکر وغیرہ اس امر میں عمرو کی امدادشفعہ دلانے میں کرتے ہیں۔اب شفیع کا شفیع بن کر مستحق شفعہ اس زمین مبیعہ غیر اتصالی کا،جس کا شفعہ بکر عمرو کودے چکا ہے،ہوسکتقا ہے یانہیں؟بینوا توجروا۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حق شفعہ اسی شخص کو پہنچتا ہے جو زمین مبیعہ میں یا اس کے کسی حق(راستہ وغیرہ) میں شرکت رکھتا ہو اور جو شخص ان دونوں میں سے کسی میں شرکت نہ رکھتا ہو،اس کو حق شفعہ نہیں پہنچتا۔
"فاذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة"[1](صحيح بخاري)
’’پھر جب حد بندی ہوجائے اور راستے الگ الگ ہوجائیں تو پھر کوئی شفعہ نہیں ہے‘‘
حنفی مذہب میں اس شخص کو بھی حق شفعہ پہنچتا ہے،جونہ نفس بیع میں شریک ہو اور نہ اس کے کسی حق میں ،لیکن زمین مبیعہ کا جارملاصق ہو،جب یہ بات معلوم ہوئی تو اب جاننا چاہیے کہ بکر وغیرہ جو زمین بیعہ کے بعض قطعات کے جار ملاصق ہیں،ان کو ازروئے مذہب حنفی صرف انھیں بعض قطعات میں جو ان کی زمین کے متصل ہیں،حق شفعہ پہنچتا ہے،نہ عمرو کو جس کی زمین کو ان قطعات سے اتصال تک نہیں ہے ،تو اس صورت میں عمرو ان قطعات مذکورہ میں اصالتا مدعی شفعہ نہیں ہوسکتا۔ہاں اگر بکر وغیرہ اصالتاً مدعی شفعہ ہوں اور عمرو کو اس مقدمہ شفعہ کا وکیل بنائیں تو عمرو صرف وکالتاً اس مقدمہ کی پیروی کرسکتا ہے وبس۔کتبه:محمد عبداللہ۔
[1] ۔صحیح البخاري رقم الحدیث(8099) صحیح مسلم رقم الحدیث(1608)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب