سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(421) قیمت سے زیادہ پر فروخت کرنا

  • 23186
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1008

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید علوی ہاشمی نے اپنی زمین مزروعہ وغیر مزروعہ واسطے بطلان شفعہ دو چند قیمت سے زیادہ پر خالد کے ہاتھ فروخت کردی،جو قوم کا حجام دوسری پٹی اور محلہ کا باشندہ ہے اور بستی میں کسی قسم کی شراکت اور ملکیت نہیں رکھتا۔اب عمرو زید کا ہم قوم ہمسایہ محلہ دار جس کی زمین کے بعض قطعے زید کی زمین بیع شدہ سے ملصق اور اکثر متفرق سو سو قدم یا کم وبیش کے فاصلہ پر ہیں۔زمین مبیعہ میں سے کچھ زمین ایسی بھی ہے،جو اب تک عمرو کی زمین سے مشترک غیر مقسومہ ہے ۔شرعاً استحقاق شفعہ بہ قیمت اصلی بازاری رکھتاہے یا نہیں؟یعنی جو قیمت بدنیتی سے زیادہ کی گئی ہے،اس کو کم کراسکتا ہے یا نہیں؟بینوا توجروا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر زید نے زمین مذکور اصلی قیمت سے زیادہ پر ایک اجنبی شخص (خالد) کے ہاتھ بہ نیت اسقاطِ حق شفعہ فروخت کی ہے تو زید کا یہ حیلہ ناجائز ہے اور عمرو اس صورت میں استحقاقِ شفعہ قیمت اصلی بازاری سے رکھتا ہے، یعنی جس زمین میں وہ استحقاق شفعہ رکھتا ہے، اس زمین کو بذریعہ شفعہ اصلی بازاری قیمت سے لے سکتا ہے۔ صحیح بخاری مع فتح الباری (۲/ ۴۰۷ چھاپہ دہلی) میں ہے:

’’قال أبو رافع (لسعد بن أبي وقاص) لو لا أني سمعت رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  یقول: (( الجار أحق بسقبہ )) ما أعطیتکھا بأربعۃ آلاف، وإنما اُعطیٰ بھا خمس مائۃ دینار فأعطاھا إیاہ‘‘[1]

[ابو رافع نے سعد بن ابی وقاص کو کہا: اگر میں نے رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا: ’’پڑوسی اپنے قرب کی وجہ سے (شفعے کا) زیادہ حق دار ہے‘‘ تو میں تمھیں چار ہزار کے عوض ہرگز یہ گھر نہ دیتا، جب کہ مجھے اس گھر کے پانچ سو دینار مل رہے ہیں،  چنانچہ  انھوں (ابو رافع) نے وہ گھر ان (سعد بن ابی وقاص) کو دے دیا]

 صفحہ (۳۶۷) میں ہے: قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم : (( من عمل عملاً لیس علیہ أمرنا فھو رد )) [2] [جس نے ہمارے طریقے سے ہٹ کر کوئی کام کیا تو وہ مردود ہے] اگر زید نے بیع مذکور نیک نیتی سے کی ہے اور بہ نیتِ اسقاط حق شفعہ نہیں کی ہے تو اگر بیع مذکور اولاً اصلی قیمت سے ہوئی تھی، پھر بعد کو اس پر قیمت زیادہ کی گئی تو اس صورت میں بھی عمرو استحقاقِ شفعہ اسی اصلی بازاری قیمت سے رکھتا ہے، کیونکہ جس وقت بیع مذکور اصلی قیمت سے ہوئی تھی، اسی وقت عمرو کو اسی اصلی قیمت سے استحقاقِ شفعہ حاصل ہو چکا تھا۔ پھر بعد کو قیمت بڑھا کر عمرو کے اس استحقاق ثابت کو باطل کر دینا عمرو کو ضرر پہنچانا ہے اور یہ امر ناجائز ہے۔ ہدایہ (۲/ ۳۸۲ چھاپہ مصطفائی) میں ہے:

’’وإن زاد المشتري للبائع، لم یلزم الزیادة في حق الشفیع، لأن في اعتبار الزیادۃ ضررا بالشفیع لاستحقاقه الأخذ بما دونھا‘‘ اھ

[اگر خریدار فروخت کنندہ کو کچھ زائد قیمت دے تو شفعہ کرنے والے کے حق میں یہ زائد رقم لازم نہیں ہوگی،  کیونکہ  زائد رقم کے اعتبار کے ساتھ شفعہ کرنے والے کو اس سے کم قیمت پر اپنا حق وصول کرنے میں ضرر رسانی ہے]

صفحہ ( ۵۸۵) میں ہے: لقوله صلی اللہ علیہ وسلم : (( لا ضرر ولا ضرار في الإسلام )) [3] اھ

[آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (پہلے پہل) کسی کو نقصان پہنچانا اور تکلیف دینا جائز ہے اور نہ بدلے کے طور پر نقصان پہنچانا اور تکلیف دینا]

’’نصب الرایة لأحادیث الہدایة‘‘ (۲/ ۳۶۳) میں ہے:

’’حدیث: قال  صلی اللہ علیہ وسلم : (( لا ضرر ولا ضرار في الإسلام )) قلت: روي من حدیث عبادة بن الصامت وابن عباس وأبي سعید الخدري وأبي ھریرة وأبي لبابة و ثعلبة بن مالک و جابر بن عبد  الله و عائشة‘‘ اھ

[حدیث کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (( لا ضرر ولا ضرار في الإسلام )) میں کہتا ہوں کہ یہ حدیث عبادہ بن صامت، ابن عباس، ابو سعید خدری، ابوہریرہ، ابو لبابہ، ثعلبہ بن مالک، جابر بن عبد   الله اور عائشہ رضی اللہ عنہم  سے مروی ہے]

اگر بیع مذکور ابتدائً ہی اصلی قیمت سے زیادہ پر ہوئی تھی، بعد کو قیمت پر زیادت نہیں ہوئی تو اس صورت میں عمرو استحقاق شفعہ اس زمین کا اصلی بازاری قیمت سے نہیں رکھتا۔ واضح رہے کہ عمرو استحقاقِ شفعہ زید کی صرف اسی زمین میں رکھتا ہے، جو عمرو کی زمین سے مشترک غیر مقسوم ہے یا گو مقسوم ہے، لیکن راستہ مشترک ہے، اس کے سوا اور زمین میں استحقاقِ شفعہ نہیں رکھتا۔ صحیح بخاری مع فتح الباری (۲/ ۷۰۶) میں ہے:

’’عن جابر بن عبد   الله قال: قضی النبي صلی اللہ علیہ وسلم  بالشفعۃ في کل ما لم یقسم، فإذا وقعت الحدود و صرفت الطرق فلا شفعة‘‘[4]

[جابر بن عبد  الله رضی اللہ عنہما  بیان کرتے ہیں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہر اس چیز میں شفعے کا فیصلہ فرمایا جو تقسیم نہ کی گئی ہو۔ جب حد بندی ہوجائے اور راستے الگ الگ ہو جائیں تو پھر کوئی شفعہ نہیں]

ہاں حسبِ مذہب حنفی عمرو اس زمین میں استحقاقِ شفعہ رکھتا ہے، جو گو مقسوم ہے اور راستہ بھی مشترک نہیں ہے، لیکن وہ زمین عمرو کی زمین سے ملصق ہے۔ ہدایہ (۲/ ۳۷۳) میں ہے:

’’الشفعة واجبة للخلیط في نفس المبیع، ثم للخلیط في حق المبیع کالشرب والطریق ثم للجار‘‘ اھ

[شفعہ ایسے خلیط کے لیے واجب ہوتا ہے، جس کی نفس مبیع میں شرکت ہو، پھر ایسے خلیط کے لیے جس کی حقِ مبیع میں شرکت ہو، جیسے شرب اور راستہ، پھر پڑوسی کے لیے شفعہ واجب ہوتا ہے]صفحہ ( ۳۷۴) میں ہے: ’’والمراد بھذا الجار الملاصق۔۔۔ الخ‘‘[اور اس پڑوسی سے مراد وہ ہے جو بالکل متصل ہو۔۔۔ الخ]        کتبہ: محمد عبد   الله

 


[1]                صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۱۳۹)

[2]                صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۷۱۸) نیز دیکھیں: صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۵۵۰)

[3]                المعجم الأوسط (۵/ ۳۲۸) نیز دیکھیں: مسند أحمد (۱/ ۳۱۳) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۲۳۴۰)

[4]                صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۰۹۹) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۶۰۸)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب البیوع،صفحہ:637

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ