السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید نے کچھ زمین بکر سے اس طرح لی کہ زبانی تو اقرار بیع کاکیا اور کاغذ میں رہن لکھا،اس لیے کہ جب بکر کو موقع ہوگا تو زید سے واپس کرلے گا اور بیع کرنے سے بکر کایہ نقصان ہوتا ہے کہ اُس کے شرکاء قانونی برتاؤ کاعمل کر کے یعنی شفعہ کرکے زمین کو زید سے نکال لیں گے تو پھر بکر نہیں پاسکتا اور زید سے بکر کو اطمینان ہے،جب چاہے گا روپیہ دے کر زمین لے لے گا اور زید اس زمین کی لگان سرکاری سال بہ سال بکر کوادا کرتا رہتا ہے اور اُس زمین کے محاصل بعد ادائے مال گزاری سرکار اپنے تصرف میں لاتاہے،لیکن اگر یہ زمین بکر کے پاس رہتی تو اس کو محاصل زیادہ ملتا،اُس سے جتنا زید دیتا ہے،کیونکہ صرف لگان سرکاری بغرض اس کے کہ زبانی تو بیع لے چکاہے ،دیتاہے،جتنا کہ بکر سرکار کو دیتا ہے،اسی قدر زید سے پاتا ہے تو ایسی صورت میں اُس زمین کامحاصل بعد ادائے لگان سرکاری زید کو اپنے تصرف میں لانا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورت مسؤلہ میں اگرچہ جب زید و بکر میں زمین مذکور کی لین دین بطور بیع قرار پائی تو یہ لین دین ایک قسم کی بیع ہوگئی اور زید کو اس زمین کا محاصل اپنے تصرف میں لانا جائز ہوگیا، لیکن یہ فریب و حیلہ و دروغ ہے جو اس صورت میں عمل میں لایا گیا، جس سے حق داروں شفیعوں کا حق مارنا قصد کیا گیا، ناجائز ہے۔ صحیح بخاری (چھاپہ مصر ربع رابع، ص: ۱۶۹) میں ہے:
’’عن أبي رافع أن سعدا ساومه بیتا بأربع مائة مثقال فقال: لو لا أني سمعت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم یقول: (( الجار أحق بسقبه )) لما أعطیتک‘‘[1]
[ابو رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سعد رضی اللہ عنہ نے چار سو مثقال کے عوض ایک گھر کا ان سے سودا کیا، پھر انھوں نے فرمایا کہ اگر میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا: ’’پڑوسی اپنے قرب کی وجہ سے (شفع کا) زیادہ حق دار ہے۔‘‘ تو میں تمھیں یہ گھر ہرگز نہ دیتا] کتبه: محمد عبد الله
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۶۵۷۷)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب