سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(418) کاروبار میں شراکت اور اس کی اقسام

  • 23183
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1255

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید متوفی کا پسر کلاں مال تجارت نفع و نقصان میں نصف کا شریک ہے اور شروع میں اصل مال تخمینا پانسوروپیہ کا تھا اور یہ مال مذکور بھی بطور قرض دونوں کے نام ذمہ تھا بفضلہ تعالیٰ اس مال مذکورسے بکوشش پسر کلاں اس قدر ترقی ہوئی کہ ہزاروں تک نوبت پہنچی کیونکہ باپ عرصہ درازسے بے تعلق رہا کرتا تھا اور پسرکلاں کے بھوسے پر کاروبار تجارت چھوڑرکھا تھا اور بعد ہونے ترقی اموال وہ قرض بھی ادا کیا گیا اور جائیداد بھی دونوں کے نام سے خریدی گئی اور لایسنس بھی دونوں کے نام سے ہوا۔ کاغذات بھی دونوں کے نام سے موجود ہیں سرکارمیں دونوں کے نام موجود ہیں ایک بار کسی غفلت سے دوبارہ لایسنس جرمانہ ہوا تو دونوں پر علیحدہ علیحدہ ہوا اور کاروبار تجارت دونوں کے نام سے جاری ہیں اور جہاں کہیں مال جاتا ہے یا کہیں سے آتا ہے تو دونوں کے نام سے جمع خرچ ہوتا ہے۔

اگر خدانخواستہ اس وقت کچھ قرض ہوتا تو پسرکلاں کی گردن پھنستی کیونکہ کاروبار عرصہ دراز سے پسرکلاں کررہا ہے اور خط کتابت حساب کتاب وغیرہ سب پسرکلاں اپنے آپ خود کرتا ہے اور زید متوفی اپنی حیات میں بخیال اس کے کہ پسرکلاں میرا شریک ہے جو اشیاء متعلق حوائج اکل و شرب وغیرہ دکان سے جاتی تھی نصف اپنے یہاں رکھتا تھا اور نصف پسرکلاں کو دیتا تھا ایک دفعہ ایسا اتفاق بھی ہوا کہ مصارف روز مرہ کے واسطے تنخواہ مقرر ہوئی وہ بھی نصفا نصف یعنی 22روپے ماہوار پسرکلاں کی آمدنی دکان سے مقرر ہوئی اب پسرکلاں مدعی ہے کہ نصف مال جائیدادمیرا ہے لہٰذا علمائے دین سے سوال ہے آیا پسرکلاں کا دعوی درست ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 صورت مسؤلہ میں پسر کلاں کا دعویٰ کہ نصف مال جائداد میرا ہے، درست ہے، اس لیے کہ یہ شرکت جو مابین باپ بیٹے کے تھی، ابتدائً  تو شرکتِ ملک تھی، کیونکہ اس اصل مال کے دونوں مالک تھے، جس کو دونوں نے بطور قرض کے حاصل کیا تھا، چنانچہ در مختار مع رد المحتار (۳/ ۳۳۳ چھاپہ دہلی) میں ہے:

’’شرکة ملک، وھي أن یملک متعدد اثنان فأکثر عینا (إلی قوله) بإرث أو بیع أو غیرھما بأي سبب کان۔۔۔ الخ‘‘

[شرکت ملک ہے، یہ کہ متعدد افراد دو یا اس سے زیادہ اصل مال کے مالک ہوں۔۔۔ وراثت کے ذریعے یا بیع کے ذریعے یا ان کے علاوہ کسی بھی سبب کے ذریعے]

لیکن اس کے بعد جب دونوں نفع و نقصان تجارت میں نصفا نصف کے شریک ہوگئے اور اسی کے مطابق تاحیات زید متوفی برابر کارروائی کرتے آئے، جیسا کہ عبارتِ سوال میں مصرح ہے تو یہ شرکت شرکتِ عقد ہوگئی اور شرکتِ عقد تین طرح کی ہوتی ہے: شرکت بالمال۔ شرکت بالوجود۔ شرکت بالاعمال۔ فتاویٰ عالمگیری (۲/ ۴۰۷ چھاپہ کلکتہ) میں ذخیرہ سے منقول ہے: ’’أما شرکة العقود فأنواع ثلاثة: شرکة بالمال، وشرکة بالوجود، و شرکة بالأعمال‘‘ اھ[رہی شرکتِ عقود تو اس کی تین قسمیں ہیں: 1۔شرکت بالمال 2۔شرکت بالوجود 3۔شرکت بالاعمال]

یہ شرکت اقسام ثلاثہ مذکورہ میں سے پہلی قسم (شرکت بالمال) ہے اور یہ ظاہر ہے، پھر شرکت بالمال کی بھی دو قسمیں ہیں: 1۔مفاوضہ و2۔ عنان۔ اگر شرکت بالمال میں شریکوں کا مالاً و ربحاً و تصرفاً و نفعاً و ضرراً مساوی ہونا شرط ہو تو شرکت مفاوضہ ہے، ورنہ عنان ہے۔ فتح القدیر (۲/ ۸۱۳ چھاپہ نول کشور) میں ہے:

’’العقد إما أن یذکر فیه مال أو لا، وفي الذکر إما أن تذکر المساواة في المال وربحه وتصرفه ونفعه وضررہ أو لا، فإن شرطا ذلک فھو المفاوضة وإلا فھو العنان‘‘ اھ

[عقد میں مال کا ذکر ہوگا یا نہیں، ذکر کی صورت میں مالاً و ربحاً و تصرفاً ونفعاً و ضراً مساوی ہونا شرط ہوگیا یا نہیں، اگر شرط ہو تو یہ شرکت مفاوضہ ہے ورنہ عنان]

تو اس شرکت میں بھی اگر امور مذکورہ میں مساوات شرط تھی تو مفاوضہ ہوگی، ورنہ عنان ہوگی اور دونوں صورتوں میں یعنی خواہ یہ شرکت مفاوضہ ہو یا عنان ہو، پسر کلاں کا دعویٰ مذکورہ درست ہے۔ مفاوضہ کی صورت میں تو درست ہونا ظاہر ہے، اس لیے کہ مفاوضہ میں مالاً و ربحاً مساوات شرط ہی ہے، جیسا کہ فتح القدیر سے معلوم ہوا۔ نیز فتاویٰ قاضی خان (۴/ ۴۹۴ چھاپہ نولکشور) میں ہے: ’’ویتساویان في رأس المال (إلی قوله) ویشترط التساوي في الربح أیضاً‘‘ اھ [اصل مال میں وہ مساوی ہوں گے۔۔۔ نفع میں بھی برابری کی شرط ہوگی] در مختار (۳/ ۳۳۷) میں ہے: ’’وتساویا مالا تصح بہ الشرکة، وکذا ربحا کما حققه الوالي‘‘ اھ  [مال اور نفع میں برابری کی بنیاد پر شرکت درست ہے جیسا کہ والی نے اس بات کو ثابت کیا ہے]

عنان کی صورت میں اس لیے درست ہے کہ عنان میں اگرچہ مساوات مذکورہ شرط نہیں ہے، بلکہ جائز ہے کہ دونوں شریک اصل مال میں برابر نہ ہوں اور نفع میں برابر ہوں یا اصل مال میں برابر ہوں اور نفع میں برابر نہ ہوں، بلکہ جو شریک تجارت کے کاروبار کو تنہا انجام دیتا ہو یا اور شریک سے زیادہ تجارت کا کام کرتا ہو، اس کو نفع میں زیادہ حصے کا مستحق ٹھہرانا بھی جائز ہے اور اس صورت میں وہ زیادہ حصہ کا مستحق ہوگا اور جب وہ زیادہ حصے کا مستحق ہوا تو نصف کا تو بطریق اولیٰ مستحق ہے۔

’’رد المحتار‘‘ (۲/ ۳۴۱) میں ہے:

’’قولہ: مع التفاضل في المال (دون الربح) أي بأن یکون لأحدھما ألف وللآخر ألفان مثلاً، و اشترطا التساوي في الربح۔ وقولہ: و عکسہ أي بأن یتساوی المالان، ویتفاضلا في الربح، لکن ھذا مقید بأن یشترطا الأکثر للعامل منھما أو لأکثرھما عملاً۔۔۔ الخ‘‘

[اس کا قول: مال میں برابر نہ ہونے کے ساتھ (نفع کے سوا) یعنی مثلاً: ایک کا مال ایک ہزار اور دوسرے کا دو ہزار ہو اور ان دونوں نے نفع میں برابری کی شرط لگائی ہو اور اس کا یہ قول: اور اس کے برعکس ’’یعنی مال میں وہ دونوں برابر ہوں اور نفع میں برابر نہ ہوں، لیکن یہ اس بات کے ساتھ مقید ہے کہ وہ عامل کے لیے زیادہ (نفع) کی شرط لگائیں یا اس کے لیے جو کام زیادہ کرنے والا ہو ۔۔۔ الخ]

اور اگر اس شرکت میں ابتدائے حالت کا لحاظ کیا جائے، یعنی صرف شرکتِ ملک کا اعتبار کیا جائے اور شرکتِ عقد سے قطع نظر کیا جائے، تب بھی پسرِ کلاں کا دعویٰ مذکورہ درست ہے، کیونکہ شرکتِ ملک میں اصول یہ ہے کہ جس قدر مال میں ترقی ہوتی ہے، ہر ایک شریک بقدر اپنی اپنی ملک کے اس کا مالک ہوتا ہے اور جب صورتِ مسؤلہ میں دونوں (باپ بیٹے) اصل مال میں برابر کے شریک ہیں، تو جس قدر ترقی ہوئی ہے، اس میں بھی دونوں برابر کے مالک ہوں گے۔ فتاویٰ عالمگیری (۲/ ۴۰۶) میں ہے: ’’وحکمھا أي حکم شرکة الملک علی قدر الملک‘‘ اھ [اور ان دونوں کا حکم، یعنی شرکتِ ملک کا حکم ملک کی مقدار کی بنیاد پر ہے]

الحاصل صورتِ مسؤلہ میں پسرِ کلاں کا دعویٰ مذکورہ ہر طرح درست ہے۔ اگر یہاں یہ اعتراض کیا جائے کہ جب باپ بیٹے مل کر کوئی پیشہ کریں تو ایسی صورت میں کل کمائی باپ ہی کی قرار دی جاتی ہے اور بیٹا صرف معین سمجھا جاتا ہے، چنانچہ فتاویٰ عالمگیری (۲/ ۳۳۶) اور در مختار (۳/ ۳۴۹) میں ہے:

’’الأب والابن یکتسبان في صنعة واحدة، ولم یکن لھما شيء فالکسب کله للأب إن کان الابن في عیاله لکونه معینا له‘‘ اھ

[باپ اور بیٹا ایک ہی پیشے میں کام کرتے ہوں اور دونوں کے پاس کچھ نہ ہو تو تمام آمدنی باپ کی ہوگی بشرطیکہ بیٹا اس کے عیال میں ہو، اس لیے کہ وہ اس کا معین شمار ہوگا]

تو اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یہ بات علی الاطلاق صحیح نہیں ہے، بلکہ اس صورت میں صحیح ہے کہ باپ بیٹے دونوں مل کر کوئی پیشہ کریں اور دونوں خالی ہاتھ ہوں، یعنی کچھ نہ رکھتے ہوں اور بیٹا باپ کے عیال میں بھی ہو، یعنی بیٹے کا باپ پر بوجہ اس بیٹے کے نابالغ ہونے کے یا کسی اور وجہ سے نفقہ واجب ہو، چنانچہ ان دونوں شرطوں کی تصریح خود عبارت منقولہ اعتراض میں موجود ہے۔ یعنی: یعني قولہ: ’’ولم یکن لھما شییٔ‘‘ وقوله: ’’إن کان الابن في عیاله‘‘ [اس کا یہ قول کہ ان دونوں کے پاس کچھ نہ ہو اور اس کا یہ قول کہ بیٹا اس کے عیال میں ہو]

 ما نحن فیہ میں یہ دونوں شرطیں مفقود ہیں۔ اول تو اس لیے کہ جب دونوں نے مال بطورِ قرض حاصل کر لیا تو دونوں مال کے مالک ہوگئے تو خالی ہاتھ باقی نہ رہے اور ثانی کا فقدان عبارتِ سوال سے متبادر ہے اور مسئلہ مذکورہ اعتراض کے علی الاطلاق صحیح نہ ہونے کی تائید مسئلہ ذیل سے بھی بخوبی ہوتی ہے، جو فتاویٰ عالمگیری (۲/ ۴۵۱) میں مندرج ہے:

’’قال الخجندي: ویجوز للأب والوصي أن یشترکا بمال أنفسھما مع مال الصغیر، ولو کان رأس مال الصغیر أکثر من مال رأس مالھما، فإن أشھدا یکون الربح علی الشرط، وإن لم یشھدا یحل فیما بینھما وبین   الله تعالیٰ، لکن القاضي لا یصدقھما، ویجعل الربح علی قدر رأس المال، کذا في السراج الوھاج‘‘ اھ

[خجندی نے کہا ہے: باپ اور وصی کے لیے جائز ہے کہ وہ صغیر کے مال کے ساتھ اپنے مالوں کے ساتھ شرکت کریں۔ اگرچہ صغیر کا اصل مال ان دونوں کے اصل مال سے زیادہ ہو، پس اگر ان دونوں کو گواہ بنایا جائے تو نفع شرط کی بنیاد پر ہو گا اور اگر ان کی گواہی نہ دلوائی جائے تو یہ معاملہ ان دونوں اور   الله کے درمیان ہوگا، لیکن قاضی ان کی تصدیق نہیں کرے گا اور نفع اصل مال کی مقدار کی بنیاد پر تقسیم کرے گا۔ ’’السراج الوھاج‘‘ میں بھی ایسے ہی ہے]

وجہ تائید یہ ہے کہ اس مسئلے میں طفل صغیر جو تجارت میں باپ کا شریک ہے، نفع میں بھی باپ کا شریک مانا گیا ہے اور اگر مسئلہ مذکورہ اعتراض علی الاطلاق صحیح ہوتا تو اس مسئلے میں بھی طفل مذکور نفع میں شریک نہ مانا جاتا۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب البیوع،صفحہ:633

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ