قرآنِ مجید میں ارشادِ ربانی ہے: ﴿ وَاللّٰہُ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ - یُضِلُّ بِه مَنْ یَّشَآءُ ﴾ ہدایت اور گمراہی دونوں اللہ کے اختیار میں ہیں ۔ تو انسان قصور وار کیوں؟
_______________________________________________________
آپ سوال میں لکھتے ہیں، قرآنِ مجید میں ارشادِ ربانی ہے: ﴿ وَاللّٰہُ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ - یُضِلُّ بِه مَنْ یَّشَآءُ ﴾قرآنِ مجید میں ارشادِ ربانی ان الفاظ کے ساتھ مجھے تو نہیں ملا۔ آپ برائے مہربانی ذرا سورت اور آیت نمبر کی نشاندہی فرمادیں۔ بڑی نوزاش ہوگی۔
سوال یہ بنایا گیا ہے ’’ ہدایت اور گمراہی دونوں (اللہ تعالیٰ ) کے اختیار میں ہیں تو انسان قصور وار کیوں؟ ‘‘ تو جواباً عرض ہے قرآنِ مجید کی کئی ایک آیات میں بتایا گیا ہے کہ رزق اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے۔ ایک مقام پر فرمایا:
[ ’’ اللہ تعالیٰ تو خود ہی سب کا روزی رساں توانائی والا اور زور آور ہے۔‘‘ ]تو ان سوال کرنے والے صاحب سے آپ پوچھیں جب رزق اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے رزق اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے تو پھر انسان رزق کی خاطرمارے مارے کیوں پھرتا ہے؟ دکان ڈالتا ہے ، فیکٹری لگاتا ہے ، مزدوری کرتا ہے، ملازمت اختیار کرتا ہے اور زراعت و کاشتکاری کرتا ہے۔ آخر یہ سارے اور ان کے علاوہ اور دھندے کیوں؟ جبکہ رزق اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے:
[’’ اور جتنی بھی چیزیں ہیں، ان سب کے خزانے ہمارے پاس ہیں اور ہم ہر چیز کو اس کے مقررہ انداز سے اتارتے ہیں۔‘‘]
پھر یُضِلُّ اللّٰہُ مَنْ یَّشَآء اور یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآء میں یہ نہیں کہ ہدایت اور ضلالت انسان کے بس اور اختیار میں نہیں، جیساکہ سائل صاحب سمجھ رہے ہیں۔ صرف ’’ مَنْ یَّشَآء ‘‘کے لفظ آئے ہیں، جس سے انسان کی مشیت ، اس کے ارادے اور اختیار و قدرت کی نفی نہیں نکلتی۔ دیکھئے انسان کا کوئی کام بھی لے لیجئے۔ مثلاً: اس کا گھر سے نکل کر مکان یا کارخانے یا دفتر میں جانا ، اللہ تعالیٰ کی مشیت، اس کے ارادے اوراختیار و قدرت سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
[’’ اور تم بغیر پروردگارِ عالم کے چاہے کچھ نہیں چاہ سکتے۔‘‘ ]مگر اس سے آج تک کبھی کسی نے نہ سمجھا اور نہ کہا کہ میں گھر سے نکل کر دکان یا کارخانے یا دفتر اپنی مشیت، اپنے ارادے اور اختیار و قدرت کے بغیر گیا، کسی نے اس کو جبر قرار نہیں دیا۔ بالکل اسی طرح انسان کی ہدایت و ضلالت والا معاملہ کہ اس کی ہدایت و ضلالت اس کے اپنے ارادے اور اختیار و قدرت سے ہے، باقی اللہ تعالیٰ کی مشیت کے انسان کی ہدایت و ضلالت کے ساتھ تعلق سے انسان کے ارادے اور اختیار و قدرت کی نفی نہیں نکلتی اور نہ ہی اس سے جبر لازم آتا ہے، اوپر والی مثال پر غور فرمالیں۔
پھر یُضِلُّ اللّٰہُ مَنْ یَّشَآء اور یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآء کو اللہ تعالیٰ نے دوسری آیات میں واضح فرمادیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
[ ’’ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنا برگزیدہ بناتا ہے اور جو بھی اس کی طرف رجوع کرے، وہ اس کی صحیح رہنمائی کرتا ہے۔‘‘ ] ایک اور مقام پر ہے:
[ ’’ جو بات کو کان لگاکر سنتے ہیں، پھر جو بہترین بات ہو، اس کا اتباع کرتے ہیں یہی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی ہے اور یہی عقلمند بھی ہیں۔‘‘ ]ایک اور مقام پر ہے:
[’’اور جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں، ہم انہیں اپنی راہیں ضرور دکھادیں گے۔‘‘] ایک اور مقام پر ہے:
ایک اور مقام پر ہے:
ایک اور مقام پر ہے:
ایک اور مقام پر ہے:
سائل صاحب نے سوال کیا کہ انسان قصور وار کیوں؟ تو جنابِ محترم! انسان قصور وار اس لیے کہ ا س نے اپنی مشیت ، اپنے ارادے اور اختیار سے بلاجبر و اکرا ہ اپنے ظلم و فسق کی بنا پر ضلالت و گمراہی کو اختیار کیا اور اپنایا۔ واللہ اعلم۔