سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(414) معین نفع کے ساتھ کاروبار میں پیسا لگانا

  • 23179
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 781

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک کمپنی جس کے شرکاہنود ہیں اور اس کمپنی میں سودی معاملات بھی جاری ہیں اور تجارت کاکام بھی ہے ہر ایک کی شاخ جدا گانہ ہے اس کمپنی میں جو شخص جس شاخ میں روپیہ دے اس کو کمپنی مذکورمنافع معین ایک خاص شرح سے دیتی ہے اور باقی منافع اس روپیہ کا حق المحنت میں کمپنی لیتی ہے اگر کوئی مسلمان تجارتی شاخ کمپنی مذکورمیں دے اور منافع کا بشر ح معین حصہ شش ماہی یا سالانہ لیتا رہے تو شرعاً درست ہے یا نہیں؟جواب مدلل بہ آیت و حدیث یا بہ سند فقہ کے ہو نا ضروری ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورتِ مسؤل عنہا شرعاً درست نہیں ہے، کیونکہ جب کمپنی مذکور روپیہ دینے والے کو منافع معین ایک خاص شرح سے دیتی ہے تو یہ صورت شرکت فی التجارۃ کی نہیں ہوئی، بلکہ قرض کی صورت ہوگی کہ کمپنی مذکور روپیہ لے کر شش ماہی یا سالانہ ایک خاص شرح سے سود دیتی ہے۔ روپیہ دینے والے کو نفع و نقصان سے کوئی غرض متعلق نہیں۔ الغرض یہ صورت ربا کی صورتوں میں داخل ہے، جو شرعاً قطعی حرام ہے۔ لقولہ تعالیٰ:

﴿ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا﴾ [البقرۃ: ﴿٢٧٥ ]

[اور سود کو حرام کیا]

(ہدایة کتاب الشرکة): ’’ولا تجوز الشرکة إذا شرط لأحدھما دراھم مسماة من الربح، لأنہ شرط یوجب انقطاع الشرکة فعساہ لا یخرج إلا قدر المسمی لأحدھما، ونظیرہ في المزارعة‘‘[1]انتھی

[ہدایہ کی کتاب الشرکہ میں ہے کہ جب دونوں میں سے ایک کے لیے نفع سے معلوم دراہم کی شرط لگائی جائے تو شرکت جائز نہیں ہے،  کیونکہ  یہ ایسی شرط ہے جو انقطاعِ شرکت کو واجب کرتی ہے، اس لیے کہ شاید اس (شراکت والی تجارت) سے اتنا ہی نفع ہو، جتنا ان میں سے ایک کے لیے مختص کر دیا گیا ہے اور اسی طرح مزارعت میں ہوتا ہے]

(ہدایہ کتاب المزارعة): ’’ولا تصح المزارعة إلا أن یکون الخارج شائعا بینھما تحقیقا لمعنی الشرکة، فإن شرط لأحدھما قفزانا مسماة فھي باطلة، لأن بہ تنقطع الشرکة، لأن الأرض عساھا لا تخرج إلا ھذا القدر، وصار کاشتراط دراھم معدودة لأحدھما في المضاربة‘‘[2]انتھی

[ہدایہ کی کتاب المزارعہ میں ہے کہ مزارعت صحیح نہیں ہوتی مگر اس طور پر کہ پیداوار دونوں میں معروف ہو، تاکہ شرکت کے معنی متحقق ہوں۔ پس اگر دونوں نے متفق ہو کر ایک کے لیے کچھ معلوم قفیز شرط لگائے تو مزارعت باطل ہے،  کیونکہ  ایسی شرط کے ساتھ شرکتِ پیداوار منقطع ہوجائے گی، اس لیے کہ شاید زمین کی پیداوار اسی قدر ہو اور یہ ایسا ہوگیا جیسے مضاربت میں کسی ایک کے لیے معدود درہموں کی شرط لگائی گئی]

(ہدایة کتاب المضاربة): ’’ومن شرطھا أن یکون الربح بینھما مشاعا لا یستحق أحدھما دراھم مسماة من الربح، لأن شرط ذلک یقطع الشرکة بینھما، ولا بد منھا کما في عقد الشرکة‘‘[3]انتھی

[ہدایہ کی کتاب المضاربہ میں ہے کہ مضاربت کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ نفع ان دونوں میں مشترک ہو، ان میں سے کوئی بھی نفع میں سے دراہمِ معلومہ کا مستحق نہ ہو،  کیونکہ  ایسی شرط لگانا دونوں میں شرکت کو قطع کر دیتا ہے، حالانکہ  شرکت لازمی ہے، جیسا کہ عقدِ شرکت میں ہوتا ہے]

 


[1]                الھدایة (۳/ ۹)

[2]                الھدایة (۴/ ۵۵)

[3]                الھدایة (۳/ ۲۰۲)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب البیوع،صفحہ:627

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ