السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید نے اپنی مملوک اراضی ایک شخص کو اجارہ دیا کہ بعد وفات زید کے وہ شخص تاحیات اپنی اس اراضی پر قابض و دخیل ہوگا اور بعداجارہ کے زید نے اس زمین کو بیع کردیا اور قبالہ بیع میں یہ لکھا کہ تاحیات اس شخص مستاجر کے اراضی مبیعہ قبضہ میں اسی کے رہے گی اور مشتری صرف اجری (جو محض اقل قلیل ہے) پائے گا پس اس قسم کا اجارہ صحیح اور نافذ ہو گا یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورت میں مندرجہ سوال ہذا گو بظاہر صورت اجارہ ہے مگر درحقیقت وصیت بالاجارہ ہے لیکن جب زید موصی (وصیت کنندہ ) اس اراضی کو جس کے اجارہ کی وصیت کی تھی بیع کردیا تو یہ فعل زید کا وصیت مذکورہ سے رجوع ہو گیا یعنی زید موصی نے اس فعل سے وصیت مذکورہ کو فسخ کردیا اور موصی کو ایسا کرنا یعنی وصیت سے رجوع کرنا جائز ہے اور وصیت مذکورہ فسخ ہوگئی تو نافذ نہ ہوگی صورت مندرجہ سوال اس لیے از قلیل وصیت ہے کہ وصیت اس کا نام ہے کہ ایک شخص کو کسی چیز کا اس طرح پر مالک کردے کہ وہ تملیک اس مالک کنندہ کی موت کی طرف مضاف ہو۔ یعنی وہ دوسرا شخص اس چیز کا مالک بعد موت مالک کنندہ کے ہو۔صورت ہذا میں زید نے ایسا ہی کیا کہ اس دوسرے شخص کو اپنی اراضی مملوکہ کے منافع کا بعد اپنی وفات کے مالک بنایا۔
"هي تمليك مضاف الي ما بعد الموت"(دیکھو: تنویر الابصارمتن درمختار جھایہ 45/5)
(وہ تملیک ہے کو (مالک کنندہ کی) موت کے بعد کی طرف مضاف ہے)
زید کا اراضی مزکورہ کو بعد وصیت کے بیع کردینا اس کی وصیت مذکورہ سے رجوع ہوگیا کہ بعد وصیت کے موصی کی ایسی کوئی کاروائی ہے۔
"وكل تصرف اوجب ذوال ملك الموصي فهو رجوع كما اذا باع العين الموصي به ثم اشتراه"(دیکھو:ھدایہ جلدین اخیرین چھایہ مصطفائی ص644)
(ہر ایسا تصرف اور کاروائی جس سے وہ موصی کی ملک سے نکل جائے وہ رجوع تصور ہوگی۔مثلاً جب وہ موصی بہ کو فروخت کر کے پھر اسے خریدلے)موصی کو وصیت سے رجوع کرنا اس لیے جائز ہے کہ وصیت ایک قسم کا ناتمام تبرع ہے اور ایسے تبرع سے رجوع کرنا جائز ہے۔
"ويجوز للموصي الرجوع عن الوصية لانه تبرع لم يتم فجاز الرجوع عنه"(دیکھو: ھدایہ صفحہ مذکورہ )
وصیت کنندہ کے لیے وصیت سے رجوع کرنا جائز ہے کیوں کہ یہ غیر مکمل تبرع ہے لہٰذا اس (تبرع ) سے رجوع کرنا جائز ہے)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب