سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(406) جائز حق کو ناجائز طریقے سے وصول کرنا

  • 23171
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 862

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کسی شخص کا حق جائز ہو مگر وہ کسی وجہ سے نہ وصول کر سکے آیا اس جائز حق کو کسی ناجائز طریقے سے وصول کر سکتا ہے یا نہیں ؟ مثلاً زید کا لگان بذمہ بکر عرصہ تیس سال سے باقی ہے مگر قانوناًعلت تمادی سے زید کو اس کا روپیہ نہیں مل سکتا اور بکر دینے سے منکر ہے کیا زید اتنی مدت کا روپیہ جس پر تمادی عارض نہیں ہوتی مع سود نالش کر سکتا ہے یا نہیں جس سے تمام روپیہ اپنا وصول کر سکے؟ اس حیلے سے وصول کرنے والاآکل رہا ہوسکتا ہے۔یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر زید ایسی صورت میں اتنی مدت کے روپے کی جس پر تمادی قانونی عارضی نہیں ہوئی ہے نالش کرے اور اس مدت کے روپے کو جس پر تمادی قانونی عارض ہو چکی ہے سود کے لفظ سے تعبیر کر کے اپنی عرضی نالش مع سود لفظ لکھ دے جس سے وہ قانوناً اپنا تمام روپیہ وصول کرسکے نہ زائد تو اس تعبیر سے اس قدر روپے پر جس کو بلفظ سود تعبیرکیا ہے رباے شرعی کی تعریف صادق نہیں آتی اس لیے کہ روپیہ مذکورزید کا حق جائز ہے جو بکر پر واجب الاد ا ہے اور رباے شرعی کوئی حق جائز نہیں ہے بلکہ محض ناجائز اور قطعاً حرام ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

 ﴿وَحَرَّمَ الرِّبو‌ٰا۟...﴿٢٧٥﴾... سورة البقرة

(اور سود کو حرام کیا)

جب روپے مذکورہ پر رباے شرعی کی تعریف صادق نہیں آتی تو اس روپے کا وصول کرنے والا نہ آکل ربا ہے نہ اس کو آکل ربا کہنا جائز ہے اور بوجہ زید کی تاخیر نالش کے تمادی قانونی عارض ہوجانے سے زید کا حق جائز ذمہ بکر سے شرعاً ساقط نہیں ہوا بلکہ حق مذکور عروض تمادی کے بعد یہی بکر کے ذمہ ویسا ہی واجب الاداہے جیسا کہ قبل عروض تمادی کے واجب الاداتھا ہدایہ (141/2مطبوع یوسفی انصاری لکھنوی ) کے حاشیہ "عنایه شرح ہدایه" سے منقول ہے۔

"اويكون قولا لا دليل عليه كما اذا مضي علي الدين سنون  فحكم بسقوط الدين عمن عليه  لتآخير المطالبة  فانه لا دليل شرعي يدل علي ذلك كذا في العناية انتهي [1]انتھی

(یا وہ کوئی ایسا قول ہو جس پر کوئی دلیل نہ ہو جیسے قرض کو کئی سال گزر چکے ہوں تو مقروض سے قرض کو ساقط کرنے کا فیصلہ دے دیا جائے کیونکہ مطالبے میں تاخیرواقع ہوئی ہے پس بلا شبہ اس پر کوئی شرعی دلیل وارد نہیں ہوئی ہے عنایہ میں ایسے ہی ہے)


[1] ۔العنایة شرح الھدایه( 93/3)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب البیوع،صفحہ:622

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ