سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(123) بیعت کرنا اور راہ تصوف پر چلنا

  • 2317
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2926

سوال

(123) بیعت کرنا اور راہ تصوف پر چلنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا کسی صوفی یا اہل علم کی بیعت کرنا اور راہ تصوف پر چلنا جائز ہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صرف مسلمانوں کے خلیفہ اور امام کی بیعت کرناجائز ہے،اہل حل وعقد علماء،فضلاء اور ذمہ داران حکومت اس کی بیعت کریں گے۔جس سے اس کی ولایت ثابت ہو جائے گی۔عامۃ الناس کے لیئے اس کی بیعت کرنا ضروری نہیں ہے۔ ان پر صرف اتنا لازم ہے کہ وہ اطاعت الہی میں اس کی فرمانبرداری کریں۔

امام مارزی فرماتے ہیں:

يَكْفِي فِي بَيْعَةِ الإِمَامِ أَنْ يَقَع مِنْ أَهْل الْحَلِّ وَالْعَقْدِ وَلا يَجِب الاسْتِيعَاب , وَلا يَلْزَم كُلّ أَحَدٍ أَنْ يَحْضُرَ عِنْدَهُ وَيَضَع يَدَهُ فِي يَدِهِ , بَلْ يَكْفِي اِلْتِزَامُ طَاعَتِهِ وَالانْقِيَادُ لَهُ بِأَنْ لا يُخَالِفَهُ وَلا يَشُقَّ الْعَصَا عَلَيْهِ انتهى [نقلاً من فتح الباري ]

امام کی بیعت میں اہل حل وعقد کی بیعت ہی کافی ہے۔بیعت بالاستیعاب واجب نہیں ہے۔ ہر شخص پر ضروری نہیں ہے کہ وہ امام کے پاس حاضر ہو اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے۔ بلکہ اس پر اتنا ہی لازم ہے کہ وہ اس کی اطاعت کرے اور اس کی مخالفت نہ کرے،اور اس کے خلاف ہتھیار نہ اٹھائے۔

اور بیعت کے حوالے سے وارد تمام احادیث سے امام کی بیعت مراد ہے۔ دیگر افراد یا جماعتوں کی بیعت مراد نہیں ہے۔ شیخ صالح الفوزان ایسی بیعتوں کے بارے میں فرماتے ہیں:

" البيعة لا تكون إلا لولي أمر المسلمين ، وهذه البيعات المتعددة مبتدعة ، وهي من إفرازات الاختلاف ، والواجب على المسلمين الذين هم في بلد واحد وفي مملكة واحدة أن تكون بيعتهم واحدة لإمام واحد ، ولا يجوز المبايعات المتعددة۔ ( المنتقى من فتاوى الشيخ صالح الفوزان 1/367)

صرف مسلمانوں کے خلیفہ اور امام کی بیعت کرناجائز ہے،اور یہ متعدد بیعتیں بدعت ہیں،اور اختلافات کا ذریعہ ہیں۔ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ ایک ملک میں صرف ایک ہی امام کی بیعت کریں(اگر واقعی کوئی امام موجود ہو) اور متعدد بیعتیں کرنا جائز نہیں ہے۔

عصر حاضر میں لوگوں نے جو تصوف کے متعدد سلسلے شروع کر رکھے ہیں ،ان کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے،ان سے بچنا چاہیئے،اور خالصتاً قرآن و حدیث کو اپنی زندگی کا مرکز و محور بنانا چاہیئے۔

هذا ما عندي والله اعلم بالصواب


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 09 ص 

تبصرے