سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(404) سودی بیع اور نقد ادھار خریدو فروخت میں فرق کرنا

  • 23169
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-08
  • مشاہدات : 641

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

1۔ایک شخص نے ایک شخص سے مبلغ دس روپیہ لیا اس شرط پر کہ آئند ہ پوس مہینے میں فی روپیہ ایک من غلہ دوں گا۔ بایع یعنی روپیہ دینے والے نے بھی اس شرط کو قبول کر لیا ۔ جب یوم معہود پہنچا تو بائع نے غلہ طلب کیا۔ مشتری نے عذر پیش کیا کہ امسال غلہ تو ہوا ہی نہیں بائع نے زجرو توبیخ کا آغاز کیا کہ مجھ کو ایک من غلہ دے دو اس وقت ازروئے نرخ خریدو فروخت کے دس من غلہ کے یہ نرخ تین روپیہ من کے حساب سے مبلغ تیس روپیہ ہوتے ہیں آیا دس من غلہ دیتے ہو یا تیس روپیہ؟مشتری بوجہ عدم دستیاب غلہ آئندہ تیس من غلہ دینے کا وعدہ کیا۔ تب بائع نے مشتری سے کہا کہ روپیہ بلا شرط آئندہ کے وعدہ پر نہیں چھوڑوں گا آئندہ فی روپیہ کیا حساب غلہ دوگے؟مشتری نے پھر روپیہ من غلہ دینے کا وعدہ کیا اب یہ بیع و شراء شرعاً جائز ہے یا نہیں اور جو دس سے بیس روپیہ انتقاع حاصل ہوئے سودہے یا نہیں؟

2۔آنکہ مشتری باستدعاے غلہ نزدیک بائع کے گیا بائع نے کہا کہ نقدلوگے یا ادھار؟مشتری نے کہا ادھارلوں گا۔تب بائع نے کہا کہ نقد دوروپیہ کے حساب سے فروخت کرتا ہوں اور ادھار بحساب تین روپیہ من مشتری فی من تین روپیہ دینے کا وعدہ پردس من غلہ لیا۔ یہ بیع شرعاجائز ہے یا نہیں؟

3۔آنکہ ایک شخص نزدیک ایک شخص کے دس بیگہ زمین رہن رکھ کر مبلغ سو روپیہ قرض لیا اس وعدہ پر کہ جس وقت روپیہ ادا کردوں گا ،زمین واپس لوں گا۔ تم مال گزاری زمیندارکودیجیو اور جائیدادوغیرہ اپنے تصرف میں لائیوپس اثنائے رہن رکھنے راہن اور واپس لینے شے مرہون تک جو انتفاع مرتہن تصرف میں لاتا ہے وہ منفعت مقبوضہ متصرفہ شرعاً سود ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1۔ایسی بیع شرعاً ناجائز ہے اور جو دس روپیہ سے بیس روپیہ انتفاع حاصل ہوئے وہ سود ہیں مشکوۃ شریف (ص243چھا پیہ دہلی ) میں ہے۔

"عن ابي سعيد خدري  رضي الله تعاليٰ عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم من اسلف في شئي فلا يصرفه الي غيره قبل ان يقبضه"[1](رواه ابو داؤد ابن ماجه )

(ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جو شخص کسی چیز میں بیع سلف کرے تو وہ اسے قبضے میں لیے بغیر دوسری چیز (کی بیع ) سے تبدیلی نہ کرے)

2۔یہ بیع شرعاً جائز ہے مشکوۃ شریف (ص240)میں ہے۔

"عن ابي هريرة رضي الله تعاليٰ عنه قال :نهي رسول الله صلي الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعته"[2](رواہ مالک والترمذي و ابو داؤد والنسائي )

(سید ناابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک سود ے میں دو سودوں سے منع فرمایا)

سنن ترمذی (ص157چھاپہ دہلی ) میں ہے۔

"حديث ابي هريرة رضي الله تعاليٰ عنه حديث حسن صحيح والعمل علي هذا عند اهل العلم وقد فسربعض اهل العلم قالوا:بيعتين في بيعة ان يقول:ابيعك هذا الثوب بنقد بعشرة وبنسيئة بعشرين ولا يفارقه علي احد البيعين فاذا فارقه علي احدهما فلاباس اذا كانت العقدة علي واحد منهما "انتهي

(ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی (مذکورہ بالا ) حدیث حسن صحیح ہے اہل علم کے ہاں اسی پر عمل ہے بعض اہل علم نے اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا ہے ایک سودے میں دوسودےاس طرح ہوتے ہیں کہ وہ کہے میں تمھیں یہ کپڑا نقد دس (درہم وغیرہ)میں فروخت کرتا ہوں اور ادھار بیس کا اور وہ ان دونوں میں سے کوئی ایک سودا قبول کیے بغیر جدا ہوجائے پس اگر وہ کوئی ایک سودا قبول کر کے جدا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے جب کہ ان میں سے کوئی ایک سودا طے ہو جائے)

3۔زمیندار کو مال گزاری دے کر جو منفعت مرتہن کو اس زمین سے حاصل ہوگی وہ سب سود ہے۔مشکوۃ شریف (ص236)میں ہے،

"عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مِثْلاً بِمِثْلٍ سَوَاءً بِسَوَاءٍ يَدًا بِيَدٍ فَإِذَا اخْتَلَفَتْ هَذِهِ الأَصْنَافُ فَبِيعُوا كَيْفَ شِئْتُمْ إِذَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ "[3]روا مسلم

عبادہ بن صامت  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :" سونے کے بدلے سونا چاندی کے بدلے چاندی گندم کے بدلے گندم جوَکے بدلے جو کھجور کے بدلے کھجوراور نمک کے بدلے نمک ایک دوسرے کے برابر ہوں اور نقدبانقد ہوں جب یہ اضاف بدل جائیں تو پھر اگر وہ نقد ہو تو جیسے چاہے بیچو)


[1] ۔سنن ابي داؤد رقم الحدیث (3468)سنن ابن ماجه رقم الحدیث (2283)اس کی سند میں"عطیه العوفی"ضعیف ہے ۔

[2] ۔موطا الامام مالک (1342) سنن ابي داؤد رقم الحدیث (3377)سنن الترمذي رقم الحدیث (1231)سنن النسائي رقم الحدیث (4632)

[3] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث(1587)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب البیوع،صفحہ:619

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ