سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(403) نقد اور ادھار بیع میں فرق کرنا

  • 23168
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1077

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ،مثلاً دھان نقد بارہ پنسری کے حساب سے فروخت ہوتاہے۔اگر اسی دھان کو اُدھار،یعنی قرض ایک من کے حساب سے فروخت کرے تو جائز ہے یا نہیں؟بینوا توجروا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایسی بیع جائز ہے،کیوں کہ عمومی دلائل اس کے جواز  پر دلالت کرتے ہیں،جیسے اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ وقوله تعاليٰ:لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ ۚ وغيره ذلك من النصوص قال في النيل(١٣٧/٥) وهو مذهب الشافعية والحنفية والجمهور ومن قال:يحرم بيع الشئي باكثر من سعر يومه لاجل النساء  تمسك بحديث ابي هريرة رضي الله تعاليٰ عنه مرفوعاً:من باع بيعتين في بيعته فله اوكسهما او الربا رواه ابو داود[1] وفيه ان في اسناده محمد بن عمرو بن علقمة قال في النيل(١٢/٥) وقد تكلم فيه غير واحد قال المنذري والمشهور عنه من رواية الدراوردي ومحمد بن عبدالله الانصاري انه  صلي الله عليه وسلم نهي عن بيعتين في بيعة قال(١٣/٥) ولاحجة فيه علي المطلوب ولوسلمنا ان تلك الرواية التي تفرد بها ذلك الراوي صالحة للاحتجاج لكان احتمالها لتفسير خارج عن محل النزاع كما سلف عن ابن ارسلان وهو ان يسلفه دينارا في قفيز حنطة الي شهر فلما حل الاجل طالبه بالحنطة قال يعني القفيز الذي لك علي الي شهرين بقفيزين  فصار ذلك بيعتين في بيعة لان البيع الثاني قددخل علي الاول فيرد اليه او كسهما وهو الاول كذا في شرح السنن لابن رسلان قادحافي الاستدلال بها علي المتنازع فيه علي ان غاية مافيها الدلالة علي المنع من البيع اذا وقع علي هذه الصورة وهي ان يقول نقدا بكذا ونسيئة بكذا الااذا قال من اول الامر نسئية بكذا فقط وكان اكثر من سعر يومه مع ان المتمسكين بهذه الرواية يمنعون من هذه الصورة ولا يدل الحديث علي ذلك فالدليل اخص من الدعويٰ وقد جمعنا رسالة في هذه المسئلة وسمينا ها شفاء الغلل في حكم زيادة الثمن لمجرد الاجل وحققناها  تحقيقا لم نسبق اليه.[2]

"اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام نیز فرمایا:’’ایماندارو! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناجائز طریقوں سے نہ کھایا کرو۔‘‘

ہاں اگر  رضا مندی سے تجارت ہوتو درست ہے۔نیل الاوطار(5/13) میں شافعیہ،حنفیہ اور جمہور کا یہی مذہب مذکور ہے۔

جو لوگ ادھار  کی وجہ سے وقتی نرخ سے زیادہ لینا حرام سمجھتے ہیں،ان کی دلیل ابوہریرۃ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:جو ایک بیع میں دو بیع کرے،اسے چاہیے کہ یا تو کم لے لے یا پھر سود کھائے۔اس حدیث کی سند میں محمد بن عمرو بن علقمہ ضعیف ہے،[3]پھراس کاجواب یہ بھی ہے کہ اس کے معنی اور بھی تو ہوسکتے ہیں ،مثلاً ایک آدمی ایک ٹوپہ گندم ایک روپیہ میں ایک مہینے کی میعاد پر لیتا ہے،ایک مہینے کے بعدگندم لینے والا مطالبہ کرے تو دینے والاکہے کہ میرے پاس اس وقت گندم نہیں ہے تو دو مہینے کے بعد مجھ سے دو ٹوپہ گندم لے لینا۔ایک بیع میں دو بیع کرنے کا یہ مطلب ہے ،اس صورت میں کم قیمت پر بیع کرنا ضرور ہوگا ،ورنہ زیادتی ،جو دوسری بیع میں کی جارہی ہے،وہ سودشمار ہوگی۔ابن رسلان کی شرح السنن میں ایسا ہی ہے۔اگر ایک چیز کی دو قیمتیں بتائے نقد کی اور ،اور ادھار کی اور تو اس صورت کو مانعین نے ناجائز کہا ہے،لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں ہے اور اگر ادھار کی قیمت وقتی نرخ سے زیادہ بتائے اور وقتی نرخ بتائے تو اس  صورت میں کوئی اختلاف ہی نہیں ہے۔ہم نے اس کی تفصیل ایک مستقل رسالے میں بیان کی ہے،جس کانام"شفاء الغلل في حكم زيادة الثمن لمجرد الاجل" ہے۔


[1] ۔سنن ابي داؤد رقم الحدیث(3461)

[2] ۔نیل الأوطار (۵/ ۲۱۴)

[3] ۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں:"صدوق له اوهام"(تقریب التہذیب ،ص:499)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب البیوع،صفحہ:618

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ