السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید نے بکر سے ایک قطعہ زمین رہن لیا اور اراضی رہن کی مالگزاری مرتہن(زید) ادا کرتا ہے اور تاادائے روپیہ کے اس رہن داری میں شرط ہے کہ اس رہن کی پیداوار،زید اپنے مصرف میں لائے تو ایسی حالت میں شرعاً بہ قرآن وحدیث اس زمین کی فصل کھانا زید کو جائز ہے یاناجائز؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایسی حالت میں زید کو اس زمین کی فصل(پیداوار) میں سے بقدر مال گزاری(جس قدر زید کو اُس میں مال گزاری ادا کرنی پڑتی ہے) کھاناجائز ہے اور اس قدر سے زائد زید کوکھانا جائز نہیں ہے،کیونکہ اس قدر سے زائد پر ربا کی تعریف صادق آتی ہے۔
"كمافي حديث ابي سعيد من قوله صلي الله عليه وسلم (فَمَنْ زَادَ أَوِ ازْدَادَ فَقَدْ أَرْبَى)[1](رواہ احمد ومسلم المنتقی باب ما یجری فیہ من الربا)
’’جس طرح ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :جو زیادہ دے یا زیادہ لے تو اس نے سود کالین دین کیا‘‘
اور ربا حرام ہے:
﴿وَأَحَلَّ اللَّهُ البَيعَ وَحَرَّمَ الرِّبوٰا۟...﴿٢٧٥﴾... سورة البقرة
’’الله نے بیع کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا‘‘
"قوله صلى الله عليه وسلم: درهم ربا يأكله الرجل وهو يعلم، أشد من ست وثلاثين زنية."[2](المنتقی باب التشدید فیہ)
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:جو شخص جانتے ہوئے ایک درہم سود کھاتا ہے تو یہ چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے بھی زیادہ سنگین ہے‘‘
[1] ۔ مسند أحمد (۳/ ۶۶) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۵۸۴)
[2] ۔ مسند أحمد (۵/ ۲۲۵) السلسلة الصحیحة، رقم الحدیث (۱۰۳۳)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب