السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اشیائے مرہونہ سے مرتہن کو کسی صورت میں فائدہ اٹھانا جائز ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اشیائے مرہونہ سے مرتہن کو کچھ بھی فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے،اس لیے کہ اشیائے مرہونہ سے مرتہن جو کچھ فائدہ اٹھائے،وہ سب داخل ربا ہے جو قطعا حرام ہے:
﴿وَأَحَلَّ اللَّهُ البَيعَ وَحَرَّمَ الرِّبوٰا۟...﴿٢٧٥﴾... سورة البقرة
’’الله نے بیع کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا‘‘
"وعن انس رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم ((إِذَا أَقْرَضَ أَحَدُكُمْ قَرْضًا فَأَهْدَى لَهُ أَوْ حَمَلَهُ عَلَى الدَّابَّةِ فَلَا يَرْكَبْهَا وَلَا يَقْبَلْهُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ جَرَى بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ قَبْلَ ذلك" ))[1](رواہ ابن ماجه والبیہقی فی شعب الایمان)
’’انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تم میں سے کوئی شخص جب(کسی کو) قرض دے،پھر وہ(مقروض) اسے کوئی تحفہ دے یا سواری کے لیے جانور پیش کرے تو(قرض خواہ کو چاہیے کہ) وہ اس پر سواری نہ کرے اور نہ وہ(تحفہ) قبول کرے،سوائے اس کے کہ ان دونوں میں پہلے سے (تحائف کا) یہ سلسلہ جاری ہو‘‘
" وعن أنس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : { إذا أقرض فلا يأخذ هدية "[2](رواہ البخاری فی تاریخہ ھکذا فی المنتقیٰ)
’’انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی شخص جب کسی شخص کوقرض دے تو وہ (قرض خواہ) اس (مقروض) سے تحفہ نہ لے)
"عن أبي بردة بن أبي موسى، قال " قدمت المدينة فلقيت عبد الله بن سلام فقال لي: إنك بأرض الربا فيها فاش فإذا كان لك على رجل حق فأهدى إليك حمل تبن او حمل شعير او حبل قت فلاتاخذه فانه ربا"[3](رواہ البخاری مشکوۃ ص:238)
’’ابو بردہ بن ابو موسیٰ بیان کرتے ہیں،میں مدینے گیاتو میں نے عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کی تو انھوں نے فرمایا:تم ایسے ملک میں رہتے ہو،جہاں سود عام ہے،جب تمھارا کسی پر کوئی حق ہو اور وہ گھاس کا ایک گٹھا یاجویا جنگلی ہرے چارے کا ایک گٹھا بطور ہدیہ بھیجے تو اسے نہ لو،کیوں کہ وہ سود ہے‘‘
بلاشک مرتہن کو شے مرہونہ سے فائدہ اٹھانا ناجائز اور سود میں داخل ہے،لیکن سواری یادودھ والا جانور اگر مرہون ہوتو اس شرط کے ساتھ کہ اس کا نفقہ مرتہن کے ذمہ ہوئے تو مرتہن کو فائدہ اٹھانا جائز ہے،جیسا کہ حدیث مذکور بجواب صاف دلالت کرتی ہے۔اس پر مکان مرہون کو قیاس نہیں کیا جاسکتا۔اس لیے کہ جانور کی زندگی کا دارومدار کھلانے پلانے پر ہے،اگر یہ بات نہ ہوگی تو وہ ضائع ہوجائے گا،مکان کی یہ کیفیت نہیں۔کما لا یخفی واللہ اعلم۔
[1] ۔سنن ابن ماجہ رقم الحدیث(2432) اس کی سند متعدد علل کی بنا پر ضعیف ہے۔تفصیل کے لیے دیکھیں:السلسلة الضعیفة رقم الحدیث (1162)
[2] ۔منتقی الاخبار(2790) مشکوة المصابیح(140/2) تاریخ کبیرمیں یہ حدیث نہیں مل سکی اور نہ اس کی سند ہی معلوم ہوسکی ہے۔یہ گذشتہ حدیث ہی کا اختصار معلوم ہوتا ہے۔
[3] ۔صحیح البخاري رقم الحدیث(3603)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب