السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
1۔اکثر مسلمان تجار اپنا مال تجارت واسطے فروخت کرنے کا کفار کے میلوں میں ونیز مسلمانوں کے میلوں میں جو پرستش گاہیں مقرر ہیں،لے جاتے ہیں اور نیت ان کی صرف فروخت کرنے مال سے ہے نہ اور کام سے آیا ان کامال لے جانا درست ہے یا نہیں؟
2۔اکثر تجارتوں میں دستور ہے ،مثلاً کپڑا جوتا وغیرہ کی بیع ہوجانے کے بعد مشتری بائع سے ایک پیسہ تھان یاپیسہ جوڑا کاٹ لیا کرتا ہےاور بائع جانتاہے کہ جس قدر پر بیع ہوئی ہے،اس سے ایک پیسہ مجھ کوکم ملے گا اور بائع و مشتری سے یہاں مراد کاریگر وسودا گر ہیں،یعنی مشتری سوداگر اور بائع بننے والا تھان کا یا جوتا بنانے والا نہ کہ عام بائع اور مشتری ،کیونکہ عام لوگوں میں پیسہ نہیں کٹتا۔آیا یہ کاٹنا پیسہ کادرست ہےیا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایسے ناجائز میلوں میں سوائے وعظ ونصیحت ،امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرنے کے اور کسی غرض سے جانا درست نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَإِذا رَأَيتَ الَّذينَ يَخوضونَ فى ءايـٰتِنا فَأَعرِض عَنهُم حَتّىٰ يَخوضوا فى حَديثٍ غَيرِهِ وَإِمّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيطـٰنُ فَلا تَقعُد بَعدَ الذِّكرىٰ مَعَ القَومِ الظّـٰلِمينَ ﴿٦٨﴾وَما عَلَى الَّذينَ يَتَّقونَ مِن حِسابِهِم مِن شَىءٍ وَلـٰكِن ذِكرىٰ لَعَلَّهُم يَتَّقونَ ﴿٦٩﴾... سورة الانعام
’’یعنی اور جب تو اُن لوگوں کو دیکھے،جو ہماری آیتوں میں خوض کرتے ہیں تو تو ان سے منہ پھیر لے،یعنی ان کے ساتھ نہ بیٹھ،یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں خوض کریں اور اگر شیطان تجھ کو(ان سے منہ پھیرنا)بھلادے تو یاد آجانے کے بعد ان کے ساتھ نہ بیٹھ اور جو لوگ کہ ہماری آیتوں میں خوض کرنے والوں ظالموں کے ساتھ بیٹھنے سے پرہیز کرتے ہیں،ان پر ان ظالموں کے محاسبہ میں سے کچھ نہیں ہے،لیکن ان پر ان ظالموں کو نصیحت کردینا ہے تاکہ وہ بچیں۔‘‘
﴿وَقَد نَزَّلَ عَلَيكُم فِى الكِتـٰبِ أَن إِذا سَمِعتُم ءايـٰتِ اللَّهِ يُكفَرُ بِها وَيُستَهزَأُ بِها فَلا تَقعُدوا مَعَهُم حَتّىٰ يَخوضوا فى حَديثٍ غَيرِهِ إِنَّكُم إِذًا مِثلُهُم ...﴿١٤٠﴾... سورة النساء
’’یعنی اللہ تعالیٰ تم پر اس کتاب میں اتار چکا ہے کہ جب تم سنو اللہ کی آیتوں کو کہ ان کا انکار کیاجاتاہے اور ان کے ساتھ ٹھٹھا کیا جاتا ہے تو اُن(انکار کرنے والے اور ٹھٹھا کرنے والے) کےساتھ نہ بیٹھ،یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں خوض کرنے لگیں،یقیناً تم انھیں کے مثل ہو،جب تم ان کے ساتھ بیٹھے رہ گئے۔‘‘
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
"من كثر سواد قوم فهو منهم"[1]( رواه ابو يعليٰ الموصلي في مسنده ورواه علي بن سعيد في كتاب الطاعة والمعصية نقله الزيلعي في نصب الراية في تخريج احاديث الهداية(٣٤٣/٢)
’’یعنی جو کسی قوم کی جماعت کو بڑھائے وہ انھیں میں سے ہے۔‘‘
2۔یہ کاٹنا پیسہ کا درست ہے،جبکہ سوداگروں میں اس کا دستور ہے اور بائع پھر اس کو جانتا ہے اور اس پر راضی ہے،کیونکہ ایسے امور میں عرف ودستور پر عمل کرنا شرعاً درست ہے۔
"وَالْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ، إِلَّا شَرْطًا حَرَّمَ حَلَالًا، أَوْ أَحَلَّ حراما"[2] (بلوغ المرام باب الصلح مطبوعه فاروقی دھلی ص:57)
"مسلمان اپنی شرطوں کے پابند ہوتے ہیں،اس شرط کے سوا جو حلال کو حرام کردے یا حرام کو حلال کردے"
[1] ۔نصب الرایة (۴/ ۴۰۳)
[2] ۔سنن الترمذي، رقم الحدیث (۱۳۵۲)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب