السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اس شہر کے تمام چمار جو تھوڑی پونجی سے دیہات سے چمڑا خرید کر شہری کو کم نفع پر فروخت کیاکرتے تھے اور اس تجارت سے یہ لوگ فائدہ اٹھاتے تھے،پس زید نے اللہ پر بھروسہ کرکے چند نفوس کو ایک ایک سو روپیہ باہم پیشگی اس شرط پر دیا کہ اس روپیہ سے دیہات کا چمڑا خرید کرلاؤ،ہم تمہارا لایا ہوا چمڑا دساور جا کر یا دساور سےخریدار کو بلوا کر معقول نفع کے ساتھ فروخت کرادیں گے اور بعد فروختگی اپنا حق المحنت ایک روپیہ 4 آنے لے لیں گے۔( اصل مسودے میں ایک ہی سوال مذکور ہے اور بقیہ چار سوال ساقط ہیں۔)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
1۔عبارت سوال سے جو سوال کا مطلب ظاہر ہوتا ہے،یہ ہے کہ زید نے جو روپیہ چاروں کو دیا،بطور قرض کےد یا،پس چمار اس صورت میں اس روپے کے مالک ہوگئے اور زید کو ان سے صرف اپنے روپے کے مطالبہ کا حق باقی رہا،پھر جب چماروں نے اس روپے سے جو چمڑے خریدے،وہ چمڑے بھی انھیں کے ملک ہوگئے اور زید نے جو ان چمڑوں کو دساور سے خریدار کو بلوا کر معقول نفع کے ساتھ فروخت کردیا،زید اس صورت میں ان کا دلال ہوگیا اور جو زید نے ایک روپیہ چار آنہ حق المحنت ان سے لیا،وہ زید کی دلالی ہوئی،ایسے معاملے کے ناجائز ہونے کی وجہ بجز اس کے معلوم نہیں ہوتی کہ زید نے جو روپیہ چماروں کو قرض دیا،وہ ایک شرط پر دیا،جو سوال میں مذکور ہے اور یہ شرط اس معاملے کے جواز کو مشتبہ کردیتی ہے ،لہذا یہ شرط اگر اس معاملے سے ساقط کردی جائے اور چماروں سے یوں کہہ دیا جائے کہ اگر اس روپے سے دیہا ت کا چمڑا خرید کر لاؤگے اور ہم سے فروخت کرانے کو کہو گے تو ہم تمہارا چمڑا دساور جا کر یا دساور سے خریدار کو بلوا کر معقول نفع کے ساتھ فروخت کرادیں گے اور ایک روپیہ 4 آنے حق المحنت لے لیں گے تو یہ معاملہ بلاشبہ جائز ہوجائے گا۔واللہ تعالیٰ اعلم۔
2۔مرداری چمڑے کی بغیر دباغت کے نہ تو تجارت جائز ہے اور نہ جائے نماز بنانا جائز ہے۔مشکوۃ میں ہے:
"قال تصدق علي مولاة لميمونة بشاة فماتت فمر بها رسول الله صلي الله عليه وسلم فقال:(( هلَّا أخذتُم إهابَها، فدَبغتموه، فانتفعتُم به؟ فقالوا: إنَّها ميتةٌ، فقال: إنَّما حَرُم أكْلُها" ))[1]
(سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی باندی کو صدقے کی بکری دی گئی پھر وہ مر گئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس سے گزرے تو فرمایا : تم نے اس کا چمڑا کیوں نہیں اتارلیا؟اس کو رنگ کیوں نہیں لیا کہ تم اس سے کوئی فائدہ اٹھالیتے؟
3۔یہ طریقہ اسلامی طریقہ نہیں ہے،بلکہ غیر اہل ملت کا ہے اور تشبہ غیر اہل ملت کے ساتھ جائز نہیں ہے۔
"قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ"[2]
’’جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہوا‘‘
4۔ایسی تجارت ناجائز ہے،زید جو بکر سے ہر مہینے میں روپے کے معارضے میں فی من ایک روپیہ لیتا ہے،سود میں داخل ہے اور سود حرام ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
﴿وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾ (البقرہ:275)
5۔زید کے بیان مندرجہ سوال کی درستی مجھے معلوم نہیں ہے۔اگرزید اپنے درستی بیان کے ثبوت میں کوئی حدیث مع سند پیش کرے تو اس حدیث مع سند کو بھیج دے گا،اس پر غور کرلیا جائے گا۔اگر حدیث مذکور بیان مذکور کے ثبوت میں سچ ثابت ہوئی تو آپ کو اطلاع دی جائےگی۔
[1] ۔ صحیح مسلم، رقم الحدیث (۳۶۳)
[2] ۔ سنن أبي داود، رقم الحدیث (۴۰۳۱)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب