سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(383) دباغت سے قبل چمڑے کی خریدو فروخت کرنا

  • 23148
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 870

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ مردار کا چمڑہ بلا مدبوغ خریدو فروخت کرنا اور منفعت و قیمت کھانے و پینے میں استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جائز نہیں ہے جواز کے لیے دباغت شرط ہے فی المنتقی (ص8)

"عن عبد الله بن عبَّاس رضي الله عنهما، قال: ((تُصُدِّق على مَولاةٍ لميمونةَ بشاةٍ، فماتتْ، فمرَّ بها رسولُ الله صلَّى الله عليه وسلَّم، فقال: هلَّا أخذتُم إهابَها، فدَبغتموه، فانتفعتُم به؟ فقالوا: إنَّها ميتةٌ، فقال: إنَّما حَرُم أكْلُها" رواه الجماعة الا ابن ماجه قال فيه عن ميمونة جعلوه من مسندها وليس فيه للبخاري والنسائي ذكر الدباغ بحال وفي لفظ لاحمد: ان داجنا لميمونة ماتت فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم الا انتفعتم باهابها؟ الا دبغتموه؟فانه ذكاته.[1]

وعن ابن عباس رضي الله عنه قال:سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم  يقول:ايما اهاب دبغ فقد طهر"[2](رواہ احمد و مسلم وابن ماجہ والترمذی)

وعن عائشة «أن النبي - صلى الله عليه وسلم - أمر أن ينتفع بجلود الميتة إذا دبغت» رواه الخمسة إلا الترمذي، [3]

وللنسائي { سئل النبي صلى الله عليه وسلم عن جلود الميتة فقال : دباغها ذكاتها } .[4]

وللدارقطني عنها عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : { طهور كل أديم دباغه } . قال الدارقطني  اسناده حسن كلهم ثقات[5]

وعن ابن عباس قال ماتت شاة لسودة بنت زمعة فقالت: يا رسول الله ماتت فلانة يعني الشاة فقال فلولا أخذتم مسكها فقالت نأخذ مسك شاة قد ماتت فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم إنما قال الله عز وجل ((قُلْ لَا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنْزِيرٍ)) فإنكم لا تطعمونه ان تدبغوه فتنتفعوا به فأرسلت إليها فسلخت مسكها فدبغته فأخذت منه قربة حتى تخرقت عندها [6]رواہ احمد باسناد صحیح اھ)

"فان اختلج في صدرك انه ورد في رواية البخاري ومالك في الموطا واحمد في مسنده وبعض طرق النسائي وغيرهم  ان النبي صلي الله عليه وسلم قال في شاة مولاة ميمونة رضي الله عنها هلا انتفعتم باهابها؟قالوا:انها ميتة قال:انما حرم اكلها ولم يذكر الدباغ فدل ذلك علي ان جلد الميتة يحل الانتفاع به من غير حاجة الي دباغه ازيح ذلك بانه قد ورد التقيد بالدباغ في روايات اخري صحيحة والاخبار تفسر بعض طرقها بعضا فوجب الاخذ به والله تعاليٰ اعلم بالصواب"

حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک لونڈی کو صدقہ میں ایک بکری ملی تو وہ مر گئی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا گزر ہو تو آپ نے فرمایا تم نے اس کا چمڑا کیوں نہ اتارلیا کہ اس کو رنگ دے کر اس سے فائدہ اٹھاتے؟کہنے لگے یہ تو مرگئی ہے؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا اس کا صرف کھانا حرام ہے بخاری اور نسائی کی روایت میں دباغت (رنگ دینے)کا ذکر نہیں ہے احمد کی روایت میں ہے کہ میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  کی ایک بکری  مرگئی تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: تم نے اس کے چمڑے سے فائدہ کیوں نہ اٹھایا کہ چمڑے کو رنگ کردینا جانور کو ذبح کرنے کے مترادف  ہے۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:جو چمڑہ رنگ دیا جائے وہ پاک ہو جاتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فر ما یا:مردارکا چمڑا جب رنگ دیا جا ئےتواس سے فائدہ اٹھانا جائز ہے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   سے مردار کے چمڑے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :چمڑے کو رنگ دینا ذبح کرنے کے مترادف ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہر چمڑے کا رنگ دینا اس کے لیے پاکیزگی ہے امام دارقطنی فرماتے ہیں اس کی سند اچھی ہے اور راوی ثقہ ہیں۔

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی ایک بکری مرگئی تو انھوں نے کہا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم !میری بکری مرگئی ہے؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : اس کی کھال اتارلو۔ کہنے لگیں ۔ مردار کی کھال اتارلیں؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : اللہ نے فرمایا ہے:’’آپ کہہ دیں جو مجھ پر وحی ہوئی ہےاس میں تو کوئی چیز کسی کھانے والے پر حرام نہیں ہے سوائے مردار یا بہنے والے خون یا خنزیر کے گوشت کے۔‘‘اور تم مردار کو کھاؤگے تو نہیں تم اس کی کھال کو رنگ لو اورکام میں لاؤ۔ حضرت سودہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے اس کی کھال اتروائی اور رنگ کر اس کی مشک بنالی اور پھربالآخر وہ مشک پرانی ہوگئی۔

امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مسند میں اسے روایت کیا ہے۔

اگر کسی کے دل میں یہ خیال گزرے کہ بخاری موطا مسند امام احمد اور سنن نسائی کے بعض طرق میں حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے واقعہ میں مردار کے چمڑے کو رنگ دینے کی شرط نہیں ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ دوسری تمام روایت میں رنگنے کی شرط موجود ہے اور احادیث کے بعض طرق کی تفسیر کرتے ہیں تو اس شرط کا قبول کرنا ضروری ہے۔


[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۴۲۱) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۳۶۳) سنن أبي داود، رقم الحدیث (۴۱۲۰) سنن النسائي، رقم الحدیث (۴۲۳۴) سنن الترمذي، رقم الحدیث (۱۷۲۷) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۳۶۱۰) مسند أحمد (۳/ ۴۷۶)

[2] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۳۶۶) مسند أحمد (۱/ ۲۱۹) سنن أبي داود، رقم الحدیث (۴۱۲۳) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۳۶۰۹)

[3] ۔   مسند أحمد (۶/ ۷۳)

[4] ۔ سنن النسائي، رقم الحدیث (۴۲۴۳)

[5] ۔  سنن الدارقطني (۱/ ۴۹)

[6] ۔مسند أحمد (۱/ ۳۲۷)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب البیوع،صفحہ:601

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ