السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک موضع میں ایک مسجد کے متعلق کسی قدر جائیداد وقف ہے اور کچھ رقم جمع ہوتی تھی چونکہ اس موضع میں کوئی مدرسہ دینیہ وغیرہ ایسا نہ تھا جس میں یہ روپیہ صرف ہوتا اس واسطے اس گاؤں سے علیحدہ دوسری جگہ کے مدرسہ میں یہ روپیہ بھیجا جاتا تھا اور اسی مدرسہ میں برابر صرف ہوتا تھا اب کے اس گاؤں میں بمشورہ یہاں کی جماعت کے ایک مدرسہ دینیہ کھولا گیا ہے اور یہ مشورہ ہوا ہے کہ گاؤں کے غربا کے لڑکوں کو جو دوسری جگہ جاکر تعلیم پانے میں سخت مجبور ہیں ان کو اللہ دینی تعلیم دی جائے کیونکہ یہاں مدرسہ قائم ہونے سے بخوبی وہ لوگ تعلیم پاسکتے ہیں اور پارہے ہیں مگر اس مدرسہ کے اخراجات کے لیے کوئی دوسری صورت نہیں ہے بجز یہی سب رقم کے پس اب سوال یہ ہے کہ آیا یہ سب رقم جو دوسری غیر جگہ کے مدرسہ میں دی جاتی تھی وہ رقم اس مدرسہ میں جہاں سے یہ آمدنی ہے خرچ کی جائے یا نہیں اور یہ مدرسہ اس رقم آمدنی کا مستحق ہے یا نہیں؟دوسرے یہ کہ اس موضع کا مدرسہ جو مذکورہ رقم آمدنی کی جگہ ہے آیا یہ مدرسہ زیادہ مستحق ہے یا مدرسہ غیر جگہ کا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واقف اپنے وقف میں جو شرط کرے اس کی پابندی لازم ہوتی ہے بشرطیکہ مذکورہ خلاف قانون شرع نہ ہو۔
"روَى مُسلِمٌ مِنْ حديثِ عائشةَ أنّ الرَّسولَ صلى الله عليه وسلم قال : ((مَنْ عَمِلَ عَمَلاً ليسَ عليه أمرُنا هذا فهو رَدٌّ))"[1](رواہ مسلم)
(جس نے ہمارے طریقے کے خلاف کوئی کام کیا تو وہ مردود اور باطل ہے)
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ : " كُلُّ شَرْطٍ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَلَوْ كَانَ مِائَةَ شَرْطٍ فَهُوَ بَاطِلٌ "[2](رواہ الشیخان )
(جس نے کوئی ایسی شرط لگائی جو کتاب اللہ میں نہیں ہے تو مردود ہے اگرچہ وہ سو شرطیں لگائے)
پس صورت مسئول عنہا میں جبکہ واقف نے ایک خاص موضع کی مسجد کے متعلق اپنی جائیداد وقف کی ہے جیسا کہ سوال میں درج ہے تو اس مسجد کے سوا اور کسی دوسری جگہ جائیداد مذکور کی آمدنی کا خرچ کرنا جائز نہیں ہے اب جو سگان موضع مذکور کے مشورہ سے اس موضع میں مدرسہ دینیہ کا قائم کرنا قرار پا یا ہے تو اگر مدرسہ مذکور منجملہ مصالح ہے جس سے مسجد مذکور کی آبادی متصورہے تو اس مدرسہ میں آمدنی مذکورکا خرچ کرنا جائز ہے ورنہ اس مدرسہ میں اور نہ کسی دوسری جگہ میں اس کا خرچ کرنا جائز ہے۔
[1] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث (1718)
(2)۔صحیح البخاري رقم الحدیث (2579)صحیح مسلم رقم الحدیث (1504)[2]
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب