السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک مردبیاہا نے اپنی بھاوج سے بد کاری کی تو حمل رہ گیا عورت کا خسر اور لوگ جب اس عورت سے دریافت کرتے ہیں کہ یہ حمل کس کاہے؟ عورت اپنے دیور کو بتلاتی ۔ اس کا سسر مار پیٹ کر نکال دیتا وہ اپنے میکے چلی جاتی۔ جب لڑکی کے ماں باپ دریافت کرتے وہاں بھی وہ اپنے دیور کو بتلاتی۔ اس کے ماں باپ یہاں سے نکال دیتے جب وہ میکے سے آتی یہاں بی زدوکوب کی نوبت رہتی اس کا خاوند پلٹن میں سرکاری ملازم تھا جب اس کو خبر ہوئی مکان آیا اپنی عورت زانیہ کو بہت کچھ تنبیہ کیا اور اس سے دریافت کیا کہ یہ بدفعل تونے کس سے کرایا؟ اس نے کہا کہ تمھارے چھوٹے بھائی سے جومیرا دیور ہوتا ہے چند مسلمان اکٹھے ہوکر ہاتھ پر قرآن مجید رکھ کر قسم کرانا چاہا اس وقت اس کا دیور جو ہمیشہ انکار کرتا تھا کہ اس فعل بد کا مرتکب میں نہیں ہوں کلام الٰہی کا خوف طاری ہوا اور اقرار کیا کہ یہ فعل شیطانی مجھ سے ہوا ہے میں اس فعل بد میں خطا وار ہوں قسم نہیں کر سکتا ۔
بعد وضع حمل ہر دوزانی و زانیہ سے توبہ لی گئی عورت کا خاوند عورت سے رضامند ہے اور تمام برادری کے لوگ مسلمانان اکل و شرب ترک کیے ہوئے ہیں اوریہ کہتے ہیں کہ اب تو کوئی حدشرعی جاری نہیں ہے ہر شخص ایسے فعل بد کا مرتکب ہو کر توبہ کر لیا کرگا۔ خوف شرعی جاتا رہا۔ کوئی ایسی سزا علمائے دین مقرر فرمائیں جس سے ہر شخص اس فعل کے کرنے سے ڈرے لہٰذا یہ سوال ہے کہ ایسی حالت میں سوائے حد سنگساری کے جو سزا شرعی مناسب و ممکن ہو تعزیر و کفارہ کی معین کر کے فتوی دیا جائے تاکہ ہر ایک شخص پر خوف شرعی غالب رہے اور خاوند اس زانیہ کا پھر سے نکاح کر کے اپنی صحبت میں رکھے یا صرف وہی توبہ کافی ہے؟ موافق حکم خدا اور رسول تحریر فرمائیے ۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بندہ اللہ سے ڈرکر اور گناہ پر نادم ہو کر اپنے گناہ سے سچی توبہ کرتا ہے (خواہ وہ کتنا ہی بڑا اور کفر ہی کیوں نہ ہو) تو اس گناہ سے ایسا پاک ہو جاتا ہے گو یا اس نے گناہ کیا ہی نہیں تھا۔
﴿قُل لِلَّذينَ كَفَروا إِن يَنتَهوا يُغفَر لَهُم ما قَد سَلَفَ...﴿٣٨﴾... سورة الانفال
(ان لوگوں سے کہہ دے جنھوں نے کفر کیا اگر وہ باز آجائیں تو جو کچھ گزر چکا انھیں بخش دیا جائے گا)
﴿ قُل يـٰعِبادِىَ الَّذينَ أَسرَفوا عَلىٰ أَنفُسِهِم لا تَقنَطوا مِن رَحمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغفِرُ الذُّنوبَ جَميعًا إِنَّهُ هُوَ الغَفورُ الرَّحيمُ ﴿٥٣﴾ وَأَنيبوا إِلىٰ رَبِّكُم وَأَسلِموا لَهُ ... ﴿٥٤﴾... سورة الزمر
(کہہ دے اے میرے بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی! اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ بے شک اللہ سب کے سب گناہ بخش دیتا ہے بے شک وہی تو بےحد بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔ اور اپنے رب کی طرف پلٹ آؤ اور اس کے مطیع ہو جاؤ)
"عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم: فيما يحكي عن ربه تبارك وتعالى قال: أذنب عبد ذنبًا فقال: اللهم اغفر لي ذنبي، فقال الله تبارك وتعالى: أذنب عبدي ذنبًا، فعلم أن له ربًّا يغفر الذنب ويأخذ بالذنب، ثم عاد فأذنب فقال: أي ربي اغفر لي ذنبي، فقال تبارك وتعالى: أذنب عبدي ذنبًا، فعلم أن له ربًّا يغفر الذنب ويأخذ بالذنب، ثم عاد فأذنب فقال: أي ربي اغفر لي ذنبي فقال تبارك وتعالى: أذنب عبدي ذنبًا، فعلم أن له ربًّا يغفر الذنب ويأخذ بالذنب، قد غفرت لعبدي فليعمل ما شاء متفق عليه"[1](متفق علیه مشکوة ص196)
(ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیا ن کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بندہ گناہ کرتا ہے تو کہتا ہے اے میرے رب! میں گناہ کر بیٹھا ہوں تو اسے بخش دے تو اس کا رب فرماتا ہے کیا میرابندہ جانتا ہے کہ اس کا کوئی رب ہے جو گناہ بخشتا ہے اور اس اس کی وجہ سے مواخذ ہ بھی کر سکتا ہے؟میں نے اپنے بندے کو بخش دیا پھر جس قدر اللہ چاہتا ہے وہ شخص گناہ سے باز رہتا ہے لیکن پھر گناہ کر لیتا ہے اور کہتا ہے اے میرے رب! میں گناہ کر بیٹھا ہوں اسے معاف کردے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کیا میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ بخش سکتا ہے اور اس پر مواخذہ بھی کر سکتاہے؟میں نے اپنے بندے کو بخش دیا پھر جس قدر اللہ تعالیٰ چاہتا ہے وہ باز رہتا ہے لیکن پھر گناہ کر بیٹھتا ہے تو کہتا ہے اے میرے رب! میں ایک اور گناہ کر بیٹھا ہوں مجھے معاف فرمادے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کیا میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ معاف کر سکتا ہے اور اس پر مواخذہ بھی کر سکتا ہے؟ میں نے اپنے بندے کو معاف کر دیا وہ جو چاہے سو کرے)
"التائب من الذنب كمن لا ذنب له"[2](رواہ ابن ماجه مشکوة ص198)
(عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص کی طرح (ہو جاتا ) ہے جس کا کوئی گناہ نہیں)
صورت سوال میں جب ہر دو زانی و زانیہ سے توبہ لی گئی یعنی دونوں نے توبہ کر لی تو وہ دونوں حسب آیت و احادیث مذکورہ بالا اس گناہ سے پاک ہوگئے اور وہ عورت بد ستور اپنے خاوند کی عورت رہی پس مسلمانوں کو چاہیے کہ ان دونوں کو اپنے ساتھ ملالیں اور اکل و شرب میں اپنے شامل کر لیں جاننا چاہیے کہ علمائے دین کا اور خواہ کسی کا یہ حق نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے آسمانی دین میں کچھ اپنی طرف سے گھٹائےیا بڑھائے جب اللہ تعالیٰ نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ ارشاد فرمایا کہ:
"مَا عَلَى الرَّسُولِ إِلاَّ الْبَلاَغُ "
یعنی رسول پر اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ اللہ کا حکم بلا کم و کاست اللہ کے اللہ کے بندوں تک پہنچا دیں تو اور کوئی کس شمار و قطار میں ہے کہ اپنی طرف سے اللہ کے دین میں کچھ گھٹائے یا بڑھائے؟ مثلاً کسی جرم کی سزا اپنی طرف سے مقرر کرنا الحاصل علمائے دین اپنی طرف سے کسی تعزیر و کفارے کے مقرر کرنے کے مجاز نہیں۔
[1] ۔صحیح البخاري رقم الحدیث (1768)صحیح مسلم رقم الحدیث 2758)
[2] ۔سنن ابن ماجه رقم الحدیث (4250)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب