سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(370) شرعی حدودکے علاوہ خود کسی جرم کی سزا مقرر کرنا

  • 23135
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 821

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض مسلمانوں میں دستور ہے کہ اگر کسی سے کوئی گناہ یاکوئی کام  مثلاً زنا چوری وغیرہ ہو تو اس مجرم سے جرمانہ و ڈانڈ لگا کر روپیہ لیتے ہیں تو وہ روپیہ مسجد میں صرف کرنا یا جائے نماز وغیرہ بنانا جائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس طرح بعض جرائم میں منجانب شارع جسمانی سزا مقرر ہے اور بعض میں عرضی اسی طرح بعض بعض جرائم میں مالی سزا بھی آئی ہے لیکن ہر ایک جرم میں سزا دہندگان اسی سزا کے دینے کے مجاز ہیں جو اس جرم میں منجانب شارع معین و مقرر ہے اس میں تغیر و تبدیل کا اختیار نہیں ہے زنا اور چوری میں مالی سزا منجانب شارع ثابت نہیں ہے تو ایسے جرائم میں مالی سزا دینا ناجائز ہے اور جو جرمانہ و ڈانڈا اس قسم کے جرائم میں برادری والے لیتے ہیں وہ مال حلال نہیں اس کو بلا رضا مندی مالک مال کے مسجد میں صرف کرنا یا جائے نماز وغیرہ بنانا جائز نہیں ہے۔کتاب "ظفر اللاضی "(ص123) میں ہے۔

"قد شرع الله سبحانه لعباده الشرائع وحد لهم الحدود وجعل لكل ذنب عقوبة ‘فالقاتل يقتل او يسلم الدية ان لم تكمل شروط القصاص اوكملت ورضي الورثة بالدية والجاني يقتص منه فيما يجب فيه القصاص ويسلم الارش في الجناية التي لا قصاص فيها والزاني والسارق والقاذف والسكران قد جاءت الشريعة بعقوبات مقدرة في كل واحد منهم وتارك اركان الاسلام او بعضها اذا اصر علي الترك ولم يتب وجب قتله بحسب الطاقة وهكذا جاءت الشريعة المطهرة  بما يلزم كل من فعل محرما او ترك واجبا ولم يات في شئي من هذه الامور الشرعية التاديب بالمال وان ورد شئي من ذلك في الشريعة كضعيف الغرامة في بعض المسائل واخذ شطر مال من لم يسلم الزكاة واخذ ثياب من يقطع اشجار حرم المدينة ونحو ذلك فهو مقصور علي محله لا تجوز مجاوزته الي غيره لان الاصل الاصيل المعلوم بالضرورة الدينية هو تحريم  مال المسلم وعصمته وعدم  تسويغه الا بطيبة من نفسه وان تلك المواضع التي ورد فيها التاديب بالمال كالمخصصة لهذا العموم فيقتصر عليها ولا يجوز مجاوزتها الي غيرها وانه لا يجوز ذلك في هذه المواضع التي وردت الا لائمة المسلمين المتبحرين في معرفة احكام الدين ولا يجوز لافرادهم كائنا من كان"

(اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے شرائع مقرر کیے ہیں ان کے لیے حدود کا تعین کیا ہے اور ہر گناہ کی سزا متعین فرمائی ہے چنانچہ قاتل کی سزا یہ ہے کہ اسے (قصاصاً) قتل کیا جائے گا یا اگر قصاص کی شرائط مکمل نہ ہو یا شرائط تو مکمل ہوں لیکن وارث دیت لینے پر رضا مند ہو جائیں تو وہ (قاتل ) دیت ادا کرے گا مجرم کے اس جرم کے بدلے اس سے قصاص لیا جا ئے گا جس جر م میں قصاص واجب ہوتا ہے اور جس جرم میں قصاص واجب نہیں ہو تا تو وہ دیت ادا کرے گا ۔ زانی چور (زناکی) تہمت لگانے والا اور نشہ کرنے ولا ان میں سے ہر ایک کے لیے شریعت میں سزا مقرر ہے اسلام کے تمام یا بعض ارکان چھوڑنے والا جب ان کے ترک پر اصرار کرے اور توبہ نہ کرے تو حسب طاقت اس کا قتل واجب ہو جا تا ہے اسی طرح ہر وہ شخص جس نے کسی حرام کام کا ارتکاب کیا یا کسی واجب کو ترک کر دیا شریعت مطہرہ میں ان سے متعلق وضاحت موجود ہے ان شرعی امور میں سے کسی کے بارے میں مال کے ساتھ سزا دینے کا ذکر نہیں ہوا ۔ اگر شریعت میں اس قسم کی کوئی سزا مقرر ہوتی ہے جیسے بعض مسائل میں تاوان کا بڑھ جانا زکات ادانہ کرنے والے کا نصف مال چھین لینا اور حرم مدینہ کے درخت کاٹنے والے کے کپڑے چھین لینا وغیرہ تو یہ صرف اپنے محل پر مقصود ہے اس کے غیر کی طرف ان کا تجاوز جائز نہیں ہے کیوں کہ ضرورت دینیہ سے جو قطعاً معلوم ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان کے مال (اپنے لیے) حرام سمجھنا اس کی حفاظت کرنا اور اس کی اجازت و رضا کے بغیر اپنے لیے حلال نہ جاننا یقیناً وہ جگہیں جن میں مال کے ساتھ سزا دینے کا ذکر ہوا ہے وہ اس عموم کو خاص کرنے کی طرح ہوں گی لہٰذا اس سزا کو صرف انہی جگہوں میں مقصود رکھا جائے گا ان کے علاوہ کسی جگہ ان کا طلاق جائز نہ ہو گا ان جگہوں میں بھی جن میں مالی سزا کا ذکر ہوا ہے ان سزاؤں کا اطلاق کرنا صرف ان آئمہ مسلمین کے لیے جائز ہے جو احکام دین میں پوری مہارت رکھتے ہیں امت کے افراد کے لیے چاہے وہ کوئی بھی ہو ایسا کرنا جائز نہیں ہے)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الحدود،صفحہ:580

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ