السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جو شخص مفقود الخبر ہو اوربعد انقضائے مدت کے جوشرع شریف سے ثابت ہے ،اس کی بی بی نے نکاح کرلیا اور شوہر ثانی سے لڑکے بھی پیدا ہوئے اور اب اس کاشوہر اول باہر سے آیا تو وہ اپنی بی بی کو پاسکے گا مع لڑکے کے یا صرف بی بی کو پائے گا یا کسی کو نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس صورت میں شوہر کو اختیار ہے چاہے بی بی لے لے یا جو مہر بی بی کو دے چکا ہے وہ مہر واپس کرلے اور لڑکےنہیں پاسکتا۔ کیونکہ یہ لڑکے شوہر ثانی سے بنکاح صحیح وجائز پیدا ہوئے ہیں ،پس یہ لڑکے شوہر ثانی کے لڑکے ہیں،نہ کہ شوہر اول کے۔"نصب الرایة لا حادیث الھدایة"(165/2) میں ہے:
"عن يحيٰ بن جعدة ان رجلا انتسفته الجن علي عهد عمر بن الخطاب رضي الله عنه فاتت امراته عمر فامرها ان تتربص اربع سنين ثم امر وليه بعد اربع سنين ان يطلقها ثم امرها ان تعتد فاذا انقضت عدتها تزوجت فان جاء زوجها خير بين امراته والصداق"[1](رواہ ابن ابی شیبہ فی مصنفہ)
’’یحییٰ بن جعدہ سے مروی ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں جنوں نے ایک شخص کو غائب کردیا۔اس کی بیوی عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئی تو انھوں نے اسے چار سال تک(گم شدہ خاوند کا) انتظار کرنے کا حکم دیا۔پھر چار سال گزرنے کے بعد(جب اس کا خاوند نہ آیا) عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس(گم شدہ) کے ولی کو حکم دیا کہ وہ اس(عورت) کو طلاق دےدے۔پھر انھوں نے اس(عورت) کو عدت گزارنے کا حکم دیا،پھر جب اس کی عدت پوری ہوجائے تو وہ شادی کرلے۔پھر اگر اس کا سابقہ شوہر آجائے تو اسے اس کی بیوی یا حق مہر لینے کا اختیار دیا جائے‘‘
[1] ۔مصنف عبدالرزاق(85/7) سنن سعید بن منصور(401/1) مصنف ابن ابي شیبہ(522/3) سنن الدارقطنی(421/2)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب