السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بلال کا عابد کے ساتھ جھگڑا ہوگیا، بلال نے اپنے بیوی سے کہا کہ اگر تم عابد کے گھر گئی تو میں تم کو طلاق دے دوں گا، اب مسئلہ یہ ہے کہ بلال یقین کی حد تک یا یقین سے کہتا ہے کہ اس نے قسم نہیں کھا ئی ہے اور اس کے الفاظ یہی تھے کہ اگر اس کی بیوی عابد کے گھر گئی تو وہ اپنی بیوی کوطلاق دے دے گا۔ جب کہ جو لوگ موجود تھے وہ بھی شک میں ہیں کہ اصل الفاظ کیا تھے۔ جس کی وجہ سے بلال کو بھی شک پڑ جاتا ہے۔ کیا اس حالت میں بلال کا یقین صحیح ہے یا شرط پوری ہونے پر طلاق واقع ہوگی۔؟ برائے مہربانی قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیں۔ جزاکم اللہ خیرا الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!پہلی بات تو یہ ہے کہ مسلمان کےلیے مشروع تو یہ ہے کہ وہ اپنے گھریلو جھگڑوں میں طلاق کے استعمال سے اجتناب کرے، اس لیے کہ طلاق کا انجام صحیح نہیں ہوتا، بہت سے لوگ طلاق کے معاملہ میں سستی اور تساہل کا مظاہرہ کرتے ہیں جب بھی ان کے مابین کوئی گھریلو جھگڑا ہو فوراً طلاق کی قسم اٹھالیتے ہیں ، اورجب بھی دوست واحباب کے مابین جھگڑا ہوا طلاق کی قسم اٹھالی ۔۔۔ اوراسی طرح یہ تواللہ تعالی کی کتاب سے ایک قسم کا کھیل ہے ، دیکھیں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی کوتین طلاقیں اکٹھی دینے والے شخص کوکتاب اللہ کے ساتھ کھیلنے والا قرار دیں تو پھراس شخص کو کیا کہيں گے جو طلاق کو اپنی عادت ہی بنا لے ؟ اورجب بھی اپنی بیوی کوکسی چيز سے منع کرنا چاہا یا پھر کسی کام کرنےکوکہنا چاہا طلاق کی قسم اٹھالی ؟ امام نسائی رحمہ اللہ تعالی نے محمود بن لبید سے بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے شخص کے بارہ میں بتایا گیا جس نے اپنی بیوی کوتین طلاق اکٹھی دے دی تھیں ، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم غصہ سے اٹھے اور فرمانے لگے
حافظ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ اس کے رجال ثقہ ہیں ، اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے غایۃ المرام ( 261 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
تو مومن جب بھی قسم کا ارادہ کرے تواللہ تعالی کی قسم اٹھاۓ ، اور اس کے لیے یہ بھی لائق نہیں کہ وہ کثرت سے قسمیں ہی اٹھاتا رہے اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے ’’ اوراپنی قسموں کی حفاظت کرو ‘‘ (المائدۃ:89 ) اس آیت کی جوتفسیر کی گئی ہے وہ بالجملہ یہی ہے کہ اللہ تعالی کی قسم کثرت سے نہ اٹھایا کرو ۔ اور رہا یہ مسئلہ کہ طلاق کی قسم اٹھالی جاۓ مثلاً یہ کہا جاۓ : اگرتم یہ کرو تو طلاق ، اگریہ نہ کرو تو طلاق ، یا پھر یہ کہے : اگرمیں ایسا کروں تومیری بیوی کو طلاق ، اگر ایسا نہ کروں تومیری بیوی کوطلاق ، اوراس طرح کے دوسرے کلمات ، تویہ سب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ھدایت و راہنمائي اورسنت کے خلاف ہے ۔( دیکھیں فتاوی المراۃ المسلۃ: 2 / 753 ) دوسری بات :رہا مسئلہ کہ اس سے طلاق واقع ہوتی ہے کہ نہیں؟ تواس میں خاوند کی نیت کا دخل ہے اگراس نے طلاق کی نیت کی اور بیوی کو قسم دی کہ وہ ایسا کام نہ کرے تو بیوی کے وہ کام کرنے سے طلاق واقع ہو جائے گی ، اوراگر وہ اس میں طلاق کی نیت نہیں کرتا بلکہ صرف اس نے تو منع کرنے کی نیت کی تھی تو اس کا حکم قسم کا ہوگا ۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
لجنۃ دائمۃ ( مستقل فتوی کمیٹی ) سے مندرجہ ذيل سوال کیا گیا : جوشخص اپنی بیوی کو یہ کہے : میرے ساتھ اٹھو وگرنہ طلاق ، اور وہ اس کے ساتھ نہ اٹھے ، تو کیا اس سے طلاق واقع ہوجاۓ گی ؟ لجنہ کا جواب تھا :
هذا ما عندي والله اعلم بالصواب فتاویٰ علمائے حدیثجلد 09 ص |