السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید کو نکاح کیے ہوئے عرصہ چودہ سال کا ہوا اور اس درمیان میں خرچ ایک پیسہ نہیں دیا اور زید کہتا ہے کہ نہ رکھوں گا ،نہ طلاق دوں گا،نہ خرچ کروں گا۔غرض بیوی رکھنے سے زید کو صاف انکار ہے تو اس صورت میں زید کا نکاح ٹوٹا یا نہیں اور زید کی بیوی دوسرا نکاح کرسکتی ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ان صورتوں میں سے کسی صورت میں بھی نہ زید کا نکاح ٹوٹا اور نہ زید کی بیوی دوسرا نکاح کرسکتی ہے۔ہاں اگر زید اسی قدر کہتا ہے کہ میں اپنی بیوی کو نہیں رکھوں گا ،تو ممکن تھا کہ زید کا یہ قول بدلالت حال یا بقرینہ دیگر طلاق کنائی سمجھاجاتا ،لیکن جب زید اس قول کے ساتھ صاف لفظوں میں طلاق دینے سے انکار کرتا ہے تو اس کا قول مذکور طلاق کنائی بھی نہیں ہوسکا۔اب اس صورت میں یہی ایک چارہ کار ہے کہ زید کی بیوی حاکم سے درخواست کرے کہ ہمارے حقوق زید سے ادا کرائے جائیں،ورنہ اس سے ہم کو طلاق دلوادی جائے ۔اگرطلاق بھی نہ دے تو مجھ میں اور زید میں تفریق کردی جائے کہ میں اس ناقابل برداشت مصیبت سے نجات پاجاؤں۔
"نصب الرایہ فی تخریج احادیث الھدایه(363/2) میں ہے:
حديث"قال عليه السلام : { لا ضرر ولا ضرار في الإسلام } " روي من حديث عبادة بن الصامت وابن عباس رضي الله عنه وابي سعيد الخدري وابي هريرة رضي الله عنه وابي لبابة وثعلبة بن مالك وجابر بن عبدالله وعائشة رضي الله تعاليٰ عنها"
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"(پہلے پہل) کسی کو نقصان پہنچانا اور تکلیف دینا جائز ہے اور نہ بدلے کے طور پر نقصان پہنچانا اور تکلیف دینا'اسے عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابولبابہ، ثعلبہ بن مالک،جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،اور عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کیا گیا ہے۔‘‘
"بلوغ المرام مع شرح سبل السلام" (١٢٥/٢) میں ہے:
عن جابر رضي الله عنه في حديث الحج بطوله قال في ذكر النساء:((ولهن عليكم ر زقهن وكسوتهن بالمعروف))[1](اخرجہ مسلم)
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:" اور تمھارے ذمے ان(عورتوں) کو اچھے طریقے سے کھلانا اور پہنانا ہے‘‘
ایضاً(126/2) میں ہے:
"حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ( أَفْضَلُ الصَّدَقَةِ مَا تَرَكَ غِنًى، وَاليَدُ العُلْيَا خَيْرٌ مِنَ اليَدِ السُّفْلَى، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ ) تَقُولُ المَرْأَةُ : إِمَّا أَنْ تُطْعِمَنِي ، وَإِمَّا أَنْ تُطَلِّقَنِي"[2]
’’اوپر والا ہاتھ(خرچ کرنے والا) نیچے والاہاتھ(مانگنے والے) سے بہتر ہے،تم میں سے کوئی(خرچ کی) ابتدا اس سے کرے جس کی کفالت کاوہ ذمہ دار ہے۔اس کی بیوی کہتی ہے:مجھے کھانے پینے کو دو،وگرنہ مجھے طلاق دے دو‘‘
"وعن سعيد بن المسيب في الرجل لا يجد ما ينفق علي اهله قال:يفرق بينهما اخرجه سعيد بن منصور عن سفيان عن ابي الزناد عنه قال :قلت لسعيد:سنة"فقال:سنة‘وهذا مرسل قوي وعن عمر رضي الله عنه انه كتب الي امراء الا جناد في رجال غابوا عن نسائهم ان ياخذوهم بان ينفقوا او يطلقوا الحديث"(اخرجہ الشافعی ثم البیہقی باسناد حسن بلوغ المرام)[3]
سعید بن المسیب سے اس آدمی کے متعلق روایت ہے ،جو اپنے اہل پر خرچ کرنے کو مال نہیں پاتا ہے،چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان جدائی کرادی جائےگی۔اس کو سعید بن منصور نے سفیان سے بیان کیا ہے ،انھوں نے ابو الزناد سے روایت کیا ہے ،انھوں نے کہا کہ میں نے سعید بن المسیب سے پوچھا:کیا یہ سنت ہے؟انھوں نے جواب دیا:ہاں سنت ہے۔یہ قوی مرسل ہے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے امرائے عساکر کی طرف ان مردوں کے بارے میں لکھا ،جو اپنی عورتوں سے غائب ہیں کہ وہ نفقہ دیں یا طلاق دیں۔
ایضاً(128/2) میں ہے:
وَعَنْ عُمَرَ - رضي الله عنه -: "أَنّهُ كَتَبَ إلى أُمَرَاءِ الأجْنَادِ في رجَالٍ غَابُوا عَنْ نِسَائِهِمْ: أَن يَأخُذُوهُمْ بأَنّ يُنْفِقُوُا أَوْ يُطَلّقُوا، فَإن طَلّقُوا بَعَثُوا بِنَفَقَةِ مَا حَبَسُوا" أَخْرَجَه الشّافِعِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ بإسْنَادٍ حَسَنٍ.(اخرجہ الشافعی ثم البیہقی باسناد حسن،بلوغ المرام،مطبوعہ فاروقی دہلی ،ص:76)
عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے لشکروں کے امرا کو ان لوگوں کے بارے میں خط لکھا جو اپنی بیویوں کو پیچھے چھوڑ گئے ہوئے ہیں کہ ان کو پکڑ کرکہیں کہ وہ اپنی بیویوں کو نفقہ بھیجیں یا ان کوطلاق دے دیں۔اگر وہ ان کو طلاق دیں تو جتنی دیر انھوں نے ان کو روکا ہے۔اس مدت کا بھی نفقہ دیں۔
[1] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث (1218)
[2] ۔سنن دار قطنی(295/3)
[3] بلوغ المرام(1158) نیز دیکھیں سن سعید بن منصور(55/2)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب