سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(359) خاوند کا کتنے سال انتظار کرنا چاہیے؟

  • 23124
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 612

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید نے ایک عورت سے نکاح کیا،اس کے دوسرے روز دو سرے ملک چلا گیا۔چھ برس انتظار کیا،نہ آیا نہ خرچ روانہ کیا۔چھ سال کے بعد زید کا پدر زید کے پاس بلانے کی غرض سے گیا،مگر نہ آیا اور نہ خرچ دیا اور نہ طلاق دیا۔مجبور ہوکر زید کا پدر واپس آیا،،جب سے دو برس کا زمانہ اورگزر گیا۔جملہ  آٹھ برس گزرا۔اب زید کی بیوی کیا کرے؟نہ آتا ہے اور نہ خرچ بھیجتا ہے نہ طلاق دیتا ہے۔عورت کہاں اپنی گزر بسرکرے؟اب دوسرے شوہر سے نکاح کرے یا نہ کرے؟جواب کتاب اللہ وسنت سے تحریر فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسئولہ میں عورت مذکورہ اپنے ضلع کے صاحب جج کے یہاں استغاثہ پیش کرے کہ اس قدر مدت سے میرے شوہر کی یہ حالت ہے کہ نہ میرے حقوق ادا کرتا ہے اور نہ مجھے  طلاق دیتا ہے اور میں سخت ضیق میں ہوں،لہذا مستدعی ہوں کہ یا تو میرے شوہر سے میرے حقوق دلوادیے جائیں یا مجھے طلاق دلوادی جائے یا مجھ میں اور اس میں تفریق کردی جائے۔اگر صاحب جج اس صورت میں طلاق دلوادیں یا تفریق کردیں(جبکہ شوہر حقوق ادا کرنے سے قاصر ہو) تو عورت مذکورہ کی عدت گزر جانے  کے بعد دوسرے شخص سے نکاح کردیاجائے۔

﴿ وَلا تُمسِكوهُنَّ ضِرارًا لِتَعتَدوا وَمَن يَفعَل ذ‌ٰلِكَ فَقَد ظَلَمَ نَفسَهُ...﴿٢٣١﴾... سورة البقرة

’’اور انھیں تکلیف دینے کے لیے نہ روکے رکھو،تاکہ ان پر زیادتی کرو اور جوایسا کرے ،سو بلاشبہ اس نے اپنی جان پر ظلم کیا‘‘

"وعن حكيم بن معاوية القشيري عن أبيه قال : قلت : يا رسول الله ما حق زوجة أحدنا عليه ؟ قال : أن تطعمها إذا طعمت وتكسوها"[1]

’’حکیم بن معاویہ قشیری اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا:اےاللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  !ہم پر بیوی کے کیا حقوق ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:تو اسے کھلائے اور پہنائے‘‘

"قال في ذكر النساء:(( ولهن عليكم رزقهن وكسوتهن بالمعروف))[2](اخرجه مسلم)

"آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نےعورتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:’’اور تمھارے ذمے ان(عورتوں) کو ا چھے طریقے سے کھلانا اور پہنانا ہے‘‘

"حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ( أَفْضَلُ الصَّدَقَةِ مَا تَرَكَ غِنًى، وَاليَدُ العُلْيَا خَيْرٌ مِنَ اليَدِ السُّفْلَى، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ ) تَقُولُ المَرْأَةُ : إِمَّا أَنْ تُطْعِمَنِي ، وَإِمَّا أَنْ تُطَلِّقَنِي"[3]

’’اوپر والا ہاتھ(خرچ کرنے والا) نیچے والاہاتھ(مانگنے والے) سے بہتر ہے،تم میں سے کوئی(خرچ کی) ابتدا اس سے کرے جس کی کفالت کاوہ ذمہ دار ہے۔اس کی بیوی کہتی ہے:مجھے کھانے پینے کو دو،وگرنہ مجھے طلاق دے دو‘‘

"وعن سعيد بن المسيب في الرجل لا يجد ما ينفق علي اهله قال:يفرق بينهما اخرجه سعيد بن منصور عن سفيان عن ابي الزناد عنه قال :قلت لسعيد:سنة"فقال:سنة‘وهذا مرسل قوي وعن عمر رضي الله عنه انه كتب الي امراء الا جناد في رجال غابوا عن نسائهم ان ياخذوهم بان ينفقوا او يطلقوا الحديث"(اخرجہ الشافعی ثم البیہقی باسناد حسن بلوغ المرام)[4]

سعید بن المسیب سے اس آدمی کے متعلق روایت ہے ،جو اپنے اہل پر خرچ کرنے کو مال نہیں پاتا ہے،چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان جدائی کرادی جائےگی۔اس کو سعید بن منصور نے سفیان سے بیان کیا ہے، انھوں نے ابو الزناد سے روایت کیا ہے ،انھوں نے کہا کہ میں نے سعید بن المسیب سے پوچھا:کیا یہ سنت ہے؟انھوں نے جواب دیا:ہاں سنت ہے۔یہ قوی مرسل ہے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ انھوں نے امرائے عساکر کی طرف ان مردوں کے بارے میں لکھا ،جو اپنی عورتوں سے غائب ہیں کہ وہ نفقہ دیں یا طلاق دیں‘‘


[1] ۔سنن ابي داؤد رقم الحدیث(2142)

[2] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث (1218)

[3] ۔سنن دار قطنی(295/3)

[4] ۔بلوغ المرام(1158) نیز دیکھیں سن سعید بن منصور(55/2)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الطلاق والخلع ،صفحہ:565

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ