السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ مسماۃ ہندہ کا زید کے ساتھ عقد ہوا جب زید ہندہ کے پاس گیا تو معلوم ہوا کہ وہ نامرد ہے مردوں کی طرح وہ جماع پر قادر نہ ہو سکا بعض مرتبہ اگر دخول ہوگیا تو عضو فوراً مسترخی ہوکر بے کار ہو جاتا تھا اور پھر اس کی حالت نامردی کی اور ترقی کر گئی زید نے بعد شادی علاج بھی کیا لیکن اس میں وہ کامیاب نہ ہوا اور زید نے ہندہ اور اولیائے ہندہ سے یہ بھی کہا کہ فیصلہ کرلو یعنی طلاق لے لو اور مہر معاف کردو۔ اولیائے زید نے کو سمجھایا کہ گھبراؤمت علاج کرو پھر دیکھا جائے گا لیکن زید ایسا گھبرا یا کہ اس نے نکل جانے کا ارادہ کیا اور ہندہ سے کہا کہ اچھا ہوں گا تو آؤں گا ورنہ نہیں آؤں گا ہندہ نے کہا میں کیا کروں گی؟زید نے کہا چند دنوں یعنی تین چار مہینے تک میرا انتظار کرنا پھر کوئی کسی کے لیے بیٹھا تھوڑا ہی رہتا ہے نہ میں خوبصورت ہوں نہ مال دار جو مجھ ساتم کو کوئی اور نہ ملے گا ۔ پھر بلا اطلاع چل دیا اور پھر آج تک جس کو عرصہ ڈیڑھ برس کا ہوا اس کا کہیں پتا نہ چلا ۔ باوجود تلاش کے اس کی کچھ خبر نہ ملی اور نہ اپنی کچھ خبر ہندہ کو بھیجی اب ہندہ ضروریات بشریہ کی وجہ سے متضرر ہے اب وہ عقد ثانی کرنا چاہتی ہے لہٰذا شرع شریف کا ہندہ کے لیے کیا حکم ہے اور جہاں تک غور کیا جا تا ہے زید کی واپسی کی کوئی امید نہیں ہے اور زید ایک مسافر غریب الوطن تھا۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس صورت میں شرع شریف کا حکم ہندہ کے لیے یہ ہے کہ وہ عقد ثانی کر سکتی ہے اگر عدت گزرچکی ہے اور اگر عدت نہیں گزری ہے تو عدت گزرنے کے بعد کر سکتی ہے اس لیے کہ ہندہ پر طلاق کنائی واقع ہو چکی ہے وہ عورت انقضائے عدت کے بعد عقد ثانی کر سکتی ہے ہندہ پر اس لیے طلاق کنائی ہو چکی ہے کہ زید نے ہندہ کے پوچھنے پر کہ تمھارےچلے جانے کے بعد میں کیا کروں گی؟زید نے کہا چند دنوں یعنی تین چار مہینے تک میرا انتظار کرنا پھر کوئی کسی کے لیے بیٹھا تھوڑا ہی رہتا ہے نہ میں خوبصورت ہوں نہ مال دار جو مجھ ساتم کو کوئی اور نہ ملے گا ۔
جس کا مطلب بہت صاف ہے کہ زید نے ہندہ سے کہا کہ تم مدت مذکورہ یعنی تین چار مہینے تک میرا انتظار کرنا پھر دوسرا عقد کر لینا کیوں کہ کوئی کسی کے لیے بیٹھا تھوڑا ہی رہتا ہے تو تم بھی میرے لیے بیٹھی نہ رہنا بلکہ دوسرا عقد کر لینا پس زید کا یہ قول لفظ ابْتَغِي الْأَزْوَاجَ (کوئی خاوند تلاش کر لے) سے ابقاع طلاق میں زیادہ صاف ہے بلکہ قریب بتصریح ہے کیوں کہ لفظ ابْتَغِي الْأَزْوَاجَ میں جس قدر غیر طلاق کا احتمال ہے اس قدر زید کے اس قول میں نہیں ہے اور لفظ ابْتَغِي الْأَزْوَاجَ طلاق کنائی ہے جیسا کہ ہدایہ وغیرہ کتب فقہ میں مذکورہے تو زید قول مذکور بالا ولیٰ طلاق کنائی ہے۔
ہدایہ (354/1)کی عبارت یہ ہے۔
وبقية الكنايات اذا نوي بها الطلاق كانت واحدة بائنة وان نوي ثلاثا كانت ثلاثا وان نوي ثنتين كانت واحدة بائنة هذا مثل قوله:انت بائن وبتة وبتلة وحرام.....الي قوله: ابْتَغِي الْأَزْوَاجَ
(طلاق کنائی میں اگر نیت ایک طلاق کی ہو تو ایک طلاق واقع ہو گی اور اگر تین کی نیت ہو گی تو تین ہوں گی اور دوکی نیت ہو گی تو ایک بائن ہوگی جیسے کہے توبائن ہے تو بتہ ہے تو بتلہ ہے حرام ہے اور کوئی دوسرا خاوند تلاش کرو)
ایسا ہی "کنز الدقائق " میں ہے اور فتاوی عالمگیری (529/1)میں ہے۔
"ابْتَغِي الْأَزْوَاجَ يقع واحدة بائنة ان تواها او ثنتان وثلاث ان نواها هكذا في شرح الوقاية"
(اگر لفظ کہے کہ کوئی خاوند تلاش کر لے تو اگر نیت ایک طلاق کی ہو گی تو ایک ہو گی۔اگر دوکی ہو گی تو دواور اگر تین کی ہو گی تو تین) باقی رہا یہ امر کہ زید کی نیت بھی اس قول سے طلاق کی تھی یا نہیں؟ سو واضح رہے کہ ضرور تھی اور یہ بہت ظاہر ہے اس لیے کہ زید نے جو بات کہی تھی ہندہ کے پوچھنے پر کہی تھی کہ تمھارے چلے جانے کے بعد میں کیا کروں گی۔ ؟ایسی حالت میں ظاہر ہی ہے کہ زید کی نیت طلاق ہی کی تھی یہاں تک کہ اگر زید بالفرض اس نیت سے انکار بھی کرے کہ میری نیت اس قول سے طلاق نہ تھی تو اس کا یہ قول اخیر مسموع نہ ہو گا ہدایہ (354/1)میں ہے۔
وفي حال مذاكرة الطلاق لم يصدق فيما يصلح جوابا ولا يصلح رد في القضاء مثل قوله خلية وبرية بائن بتته حرام اعتدي امرك بيدك اختاري لان الظاهر ان مراده الطلاق عند سئوال الطلاق"
(اگر طلاق کا تذکرہ ہور ہا ہوا ور مرد کوئی ایسی بات کہے جو سوال کا جواب ہو سکے اور قضا میں ادا کے لیے صالح نہ ہو تو وہ اگر طلاق کا انکار کرے تو اس کو سچا نہ سمجھا جائے گا جیسے تو کالی ہے تو بری ہے تو بائن ہے تو بتہ ہے تو حرام ہے تجھے اختیار ہے کیوں کہ اس صورت میں ظاہر اطلاق ہی مراد ہے جب کہ وہ طلاق کا سوال کر رہی ہو)
ظاہر ہے کہ زید کا قول مذکور ہندہ کے سوال کاجواب ہے نہ ہندہ کے سوال کا رد اور نہ وہ رد ہونے کا صالح ہے الحاصل ہندہ پر طلاق کنائی واقع ہو چکی ہے تو ہندہ کو شرعاً اختیار ہے کہ اگر عدت گزر چکی ہے تو ابھی عقد ثانی کر سکتی ہے ورنہ انقضائے عد واللہ اعلم بالصواب۔
اگر بالفرض زید کاقول مذکور طلاق قرار نہ دیا جائے تو اگر زید نے ہندہ کے لیے نفقہ نہیں چھوڑا ہے جیسا کہ عبارت سوال سے اس کا شعار ہو تا ہے تو اگر ایسی حالت میں ہندہ فسخ نکاح کی طالب ہو تو شرعاًاس کے نکاح کے فسخ کر دینے کا حکم ہے اور جب نکاح فسخ کردیا جائے تو انقضائے عدت کے بعد ہندہ عقد ثانی کر سکتی ہے۔
ردالمختار (1015/2چھاپہ مصر) میں فتاوی قاری الہدایہ سے منقول ہے۔
"حيث سأل عمن غاب زوجها ولم يترك لها نفقة . فأجاب : إذا أقامت بينة على ذلك وطلبت فسخ النكاح من قاض يراه ففسخ نفذ وهو قضاء على الغائب ، وفي نفاذ القضا ء علي الغائب ر وايتان عندنا‘فعلي القول بنفاذه يسوغ للحنفي ان يزوجها من الغير بعد العدة واذا حضر الزوج الاول وبرهن علي خلاف ما ادعت من تركها بلا نفقة لا تقبل بينته لان البينة الاوليٰ ترجحت بالقضاء فلا تبطل بالثانية"
(جب ان سے عورت کے بارے میں سوال کیا گیا جس کا شوہر غائب ہو جائے اور عورت کے لیے خرچ نہ چھوڑجائے تو انھوں نے جواب دیا جب عورت اس پر دلائل پیش کر کے ثابت کردے اور فسخ نکاح کا مطالبہ کرے تو میرے خیال میں قاضی اگر فسخ کردے تو یہ فیصلہ نافذ ہو گا یہ قضا علی الغائب کی قبیل سے ہے اور قضا علی الغیب کے نفاذ میں ہمارے نزدیک دو روایتیں ہیں اس کے نفاذ کی روایت کے مطابق حنفی کو جائز ہے کہ عدت کے بعد اس عورت کا نکاح کسی اور سے کردے۔ اگر اس کے بعد اس کا خاوند آجائے اور کہے کہ اس کے پاس خرچ موجودتھا اور دلائل سے ثابت بھی کردے تو بھی اس کی دلیل قبول نہ کی جائے گی کیوں کہ پہلی دلیل فیصلہ کی وجہ سے راجح ہو چکی ہے وہ دوسری سے باطل نہ ہو گی)
ويوئيده ما في بلوغ المرام وهو ما اخرجه سعيد بن منصور عن سفيان عن ابي الزناد عن سعيد بن المسيب في الرجل لا يجد ما ينفق علي اهله قال:يفرق بينهما قال ابو الزناد :وقلت لسعيد بن المسيب سنة؟قال سنة وهذا مرسل قوي"[1]
(اس کی تائید بلوغ المرام میں موجود سعید بن مسیب کے قول سے بھی ہوتی ہے کہ اگر کوئی آدمی بیوی کو خرچ نہ دے سکے تو ان میں تفریق کردی جائے میں نے سعید سے پوچھا کیا یہ سنت ہے؟کہا ہاں اور یہ مرسل قوی ہے۔
وفي شرح سبل السلام(١٢٧/٢) ومراسيل سعيد معمول بها لما عرف من انه لا يرسل الا عن ثقة قال الشافعي :والذي يشبه ان يكون قول سعيد سنة سنة رسول الله صلي الله عليه وسلم"
(سعید بن مسیب کی مراسیل معمول بہا ہیں کیوں کہ معلوم ہے کہ وہ ثقہ ہی سے ارسال کرتے ہیں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ سعید کے قول "یہ سنت ہے"سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے)
وفيه ايضاً:وقد اخرج الدارقطني والبيهقي من حديث ابي هريرة رضي الله عنه مرفوعاً بلفظه :قال:قال رسول الله صلي الله عليه وسلم في الرجل لا يجد ما ينفق علي امراته قال:(يفرق بينهما)
(ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو آدمی بیوی کو خرچ نہ دے سکے اس کی عورت کو علاحدہ کر دیا جائے)
"وفي بلوغ المرام ايضاً عن عمر رضي الله عنه انه كتب الي امراء الاجناد في رجال غابوا عن نسائهم ان ياخذوهم بان ينفقوا او يطلقوا الحديث اخرجه الشافعي ثم البيهقي باسناد حسن"[2]
(حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لشکروں کے سپہ سالاروں کو لکھا تھا کہ جو لوگ اپنی بیویاں چھوڑ کر باہر چلے گئے ہیں ان سے مطالبہ کرو کہ یا وہ اپنی عورتوں کو خرچ دیں یا طلاق دیں الحدیث امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مسند میں اور بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے روایت کیا ہےاور کہا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے)
"وفی سبل السلام (128/2)هذا دليل علی انه يجب احد الامرين علی الازواج الانفاق او لطلاق "اھ "
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خاوندوں پر خرچ یا طلاق میں سے ایک امر واجب ہے )
[1] ۔ بلوغ المرام رقم الحدیث (1158)
[2] ۔بلوغ المرام رقم الحدیث (1159)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب